جنوبی اسپین کے صوبے قرطبہ میں اندلس شہر سے آٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع یہ یادگار اور دلکش شہر صرف 70 سال تک موجود تھا۔ ہم بات کر رہے ہیں افسانوی شہر مدینہ الظہرہ کی، اسے عربی میں مدینۃ الزہرہ کہا جاتا ہے جس کا مطلب ہے ‘روشن شہر’۔
اس کی تعمیر مسلم ریاست اندلس کے شہزادے اور خلیفہ سوئم عبدالرحمن نے کروائی تھی۔ چونکہ قرون وسطی کے دوران اسپین اور شمالی افریقہ پر عربوں کی حکومت تھی، شہزادہ عبدالرحمٰن نے ہسپانوی شہر قرطبہ کے مغربی پہاڑی سلسلے اور اس کے دائیں کنارے پر ایک نیا شہر اور اپنی سلطنت کا دارالحکومت بنانے کا حکم دیا۔ دریائے گواڈالہارا کو کنارے اس شہر کی تعمیر کا آغاز 938ء میں کیا گیا تھا۔
یقیناً اس کا شمار دنیا کے خوبصورت ترین شہروں میں کیا جائے گا۔ ایک ایسا شہر کہ جس نے بھی دیکھا وہ دنگ رہ گیا اور اس کی تعریف کیے بنا نہ رہ سکا۔
معروف تاریخ کے مطابق اس کا نام خلیفہ کی پسندیدہ خاتون زہرا کے نام پر مدینۃ الزہرہ رکھا گیا اور اس کی تعمیر 10 سال کی مختصر مدت میں مکمل ہوئی۔ درحقیقت خلیفہ کا دربار وہاں 945ء میں منتقل کیا گیا تھا۔
جاہ و جلال کا مظہر
نئے دارالحکومت کی تعمیر میں کوئی کمی نہیں چھوڑی گئی۔ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ مدینہ الزہرہ کی تعمیر میں تقریباً 10 ہزار مزدوروں نے کام کیا۔ روزانہ 6 ہزار پتھر کے بلاک بچھائے جاتے تھے اور تقریباً 68 ہزار کلو گرام چونا اور پلاسٹر استعمال کیا جاتا تھا، جسے 1500 گدھوں اور خچروں کی مدد سے لایا گیا تھا۔
اس وقت کے بہترین کاریگروں کو نافوں، محرابوں، راہداریوں اور ستونوں کو سجانے کا کام سونپا گیا تھا۔
سفید سنگ مرمر پرتگال سے درآمد کیا گیا تھا، جامنی رنگ کا چونا پتھر قرطبہ کے پہاڑی سلسلے سے حاصل کیا گیا تھا، سرخ پتھر قریبی سیرا ڈی کیبرا پہاڑی سلسلے سے حاصل کیا گیا تھا۔ سفید چونا پتھر 85 کلومیٹر دور لیوک شہر سے حاصل کیا گیا تھا اور سونے کی تو کوئی کمی نہیں تھی۔
مدینہ الزہرہ میں آثار قدیمہ کے ڈائریکٹر البرٹو مونٹیہیو نے بی بی سی کو بتایا کہ "شہر خلافت کی طاقت کی نمائندگی کرتا تھا، اس لیے شہر کی ہر چیز کو مکمل شان و شوکت دکھانے کے لیے بنایا گیا تھا۔”
اس شہر کی تعمیر سے اس وقت کی ریاست سے بہت زیادہ مالی وسائل حاصل ہوئے، اس وقت خلافت کا سالانہ بجٹ تقریباً 40 سے 5 ملین درہم تھا اور اس کا ایک تہائی حصہ مدینہ الزہرہ کی تعمیر کے لیے استعمال ہوتا تھا۔
زمین کی ناہمواری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شہر کو تین سطحوں پر بنایا گیا۔ سب سے اوپر، خلیفہ عبدالرحمٰن کی شاہی رہائش گاہ کو عمدہ نقش و نگار اور شاندار ستونوں کے ساتھ بنایا گیا تھا۔
جہاں ایک بڑی اور اونچی راہداری سے خلیفہ شہر کو اس کی شان و شوکت کے ساتھ دیکھ سکتا تھا اور بہت دور تک اس کا نظارہ کر سکتا تھا۔
شہر کے دوسرے درجے پر سرکاری عمارتیں اور اہم درباریوں کے گھر تھے اور سب سے نچلی سطح پر لوگوں اور سپاہیوں کے گھر، مسجدیں، باغات اور حمام تھے۔
دولت کی چمک دمک
مدینہ الزہرہ کی شان و شوکت ایسی تھی کہ اس کی تعمیر کے صرف 15 سال بعد ہی اس کے کچھ حصوں کو منہدم کر کے ان کی جگہ نئے، بڑے اور عالیشان حصے بنائے گئے۔
البرٹو مونٹیہیو کہتے ہیں کہ قرطبہ کی خلافت بازنطینیوں کے مقابلے میں اس وقت بحیرہ روم میں سب سے امیر اور سب سے بڑی ریاست تھی۔ اس وقت مدینہ الزہرہ کی شان و شوکت جیسا کوئی شہر نہیں تھا۔
تاہم اپنی شان و شوکت کے باوجود یہ شہر صرف 70 سال تک قائم رہ سکا۔
سنہ 976ء میں اس وقت کے خلیفہ الحکم ثانی کی وفات کے بعد، جو اس شہر کو تعمیر کرنے والے خلیفہ سوئم عبدالرحمٰن کے بیٹے اور جانشین تھے، شہر کے زوال اور تباہی کا آغاز ہوا۔
سلطنت کی باگ ڈور اس کے بیٹے حشام کے ہاتھ میں چلی گئی۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ حشام کی عمر صرف 11 سال تھی۔
حالات کو بہتر بنانے کے لیے، ریاست کے زیادہ تر اختیارات المنظور کو دے دیے گئے، جو پہلے ہی دوسرے خلیفہ الحکم کا مشیر تھا، اور جسے حشام کا وزیر مقرر کیا گیا تھا۔
لیکن المنظور خود اندلس کا بادشاہ بنا اور اس نے اپنے ایک اور شہر مدینہ الزہرہ کی بنیاد رکھی اور اس مدینہ الزہرہ کو چھوڑ دیا۔
اور یہی نہیں بلکہ 1031 میں ایک خونریز خانہ جنگی کے نتیجے میں خلافت قرطبہ کا خاتمہ ہوا۔ اور یہیں سے یہ مملکت مختلف سلطنتوں میں تقسیم ہو گئی جیسے نام نہاد طائفہ سلطنت میں تقسیم ہوگئی اور بلاشبہ مدینہ الزہرہ کو چھوڑ دیا گیا۔
مغرب کے خوبصورت ترین شہر کو لوٹ لیا گیا، جلا دیا گیا اور اس کی خوبصورتی چھین لی گئی۔
اس کی دولت اور مہنگی ترین آرکیٹیکچرل سجاوٹ بیچ دی گئی۔ البرٹو مونٹیہیو نے انکشاف کیا کہ ‘وہ ان اشیا کا احترام کرتے جو ان کے مالک ہوتے، لہذا سامان شمالی افریقہ یا شمالی سپین میں سیویل تک پہنچا دیا گیا۔
اور پھر لوٹ مار کا بازار گرم کر دیا
شہر کو بری طرح لوٹ لیا گیا اور اس کی بہت سی عمارتوں اور دیواروں سے قیمتی پتھر اتار لیے گئے۔ البرٹو کا کہنا ہے کہ "مدینہ الزہرہ ایک بہترین کان ثابت ہوئی، جس میں نہ صرف بہت سے قیمتی پتھر موجود تھے، بلکہ بہترین طریقے سے انہیں کاٹ کر بلاکس میں بھی شامل کیا گیا،”
یہ شہر دھندلاتا چلا گیا اور یہ دھندلا پن 1911 تک جاری رہا جب پہلی کھدائی ہوئی اور اس عظیم شہر کے خزانے دنیا کے سامنے آئے۔
اور آج بھی یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس شاندار شہر کا صرف 11 فیصد ہی دنیا کے سامنے آیا ہے۔ سال 2018 میں یونیسکو نے اسے آثار قدیمہ کی فہرست میں شامل کیا گیا۔
مزید بلاگز پڑھنے کیلئے اس لنک پر کلک کریں : بلاگز