ایک زمانہ تھا جب راوی دریا لاہور شہر کی دیوار کے ساتھ بہتا تھا۔۔۔مغل شہنشاہ اکبر کے دور میں بنا خضری دروازہ دریا کے گھاٹ کے ساتھ تھا اور کشتیاں یہیں سے چلتی تھیں۔
راوی دریا شاہی قلعے کے شمال مغرب سے بہتا، قلعے اور فصیل والے شہر کو گھیرتا، موری گیٹ کے بالکل باہر آج کے اردو بازار کے ساتھ جنوب مغرب کی طرف بڑھتا اور اس ٹیلے کے گرد گھومتا جہاں آج کل ضلعی عدالتیں ہیں۔
راوی کے اس وقت کے اور موجودہ راستے کو سمجھنا شاید یوں آسان ہو جائے کہ اکبر کے چچا کامران مرزا کی بارہ دری جو اب دریا کے ایک جزیرے پر ہے، اس سے ڈھائی کلومیٹر دور تھی۔
مشہور مصنف اے حمید اپنی کتاب ‘لاہورکی یادیں’ میں لکھتے ہیں کہ قلعہ لاہور کی حالت اس زمانے میں کچھ اچھی نہ تھی۔ اس لیے کامران نے دریا کے پار اپنے لیے وسیع و گل ریز باغ کے درمیان ایک عالی شان محل (بارہ دری) تعمیر کرایا۔
ابوالفضل ’اکبرنامہ‘ میں لکھتے ہیں کہ اکبر نے سمندر کا تجربہ 1572 میں تب کیا جب انھوں نے گجرات پر قبضہ کیا۔ سورت کو فتح کرنے کے بعد اکبر نے دو بحری جہاز، بیٹے سلیم کے نام پر سلیمی اور الہٰی، یا تو تیار کروائے یا حاصل کیے۔ ان ہی جہازوں پر شاہی خواتین 1576 میں حج پر گئیں تھیں۔
بہرحال ‘آئین اکبری’ میں ایک باب ‘آئین میر بحری’ ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ مشرق، مغرب اورجنوب کے ساحل پر بڑے بڑے جہاز بنائے گئے جو مسافروں کے لیے راحت کا سامان ہیں، بندرگاہوں پر خوش حالی آگئی ہے اورعلم کو فروغ ملا ہے۔ یہ حوالہ صرف شاہی جہازوں نہیں بلکہ جہازوں کی تیاری کی عمومی ترقی کی جانب ہے۔ اسی باب میں جہازکے عملے کے ارکان کے 12 مختلف عہدے بھی بتائے گئے ہیں۔ میرملاح کے لیے ٹانڈل، سٹورکیپر کے لیے بھنڈاری وغیرہ۔
پرتگیزی گجرات کے دونوں طرف موجود ہونے کی وجہ سے وہاں کی جہاز رانی کو تو کنٹرول کر لیتے تھے لیکن سندھ کے لاہری بندر پر ان کا بس نہ چلتا تھا۔ اکبر نے 1591 میں سندھ فتح کیا تو یہ بندرگاہ شاہی انتظام میں رکھی۔
موسوی نے لکھا ہے کہ ’نہ جانے یہ لاہورسے ٹھٹھہ کی دوری کے باعث تھا یا اکبر کے 1598 میں دکن کی مہم کے لیے لاہور چھوڑنے کی وجہ سے، کہ جہاز سازی کا یہ تجربہ جاری نہ رہا۔‘
بحری جہاز بننا تو بند ہوا مگر بڑی، چھوٹی کشتیاں بنتی رہیں کیوںکہ یہ پل نہ ہونے کے باعث دریا کے پار جانے، دریائی سفر اور تجارت کی ضرورت تھیں۔
سریندر سنگھ کی ‘دارالسلطنت لاہور’ کے نام سے تحقیق کے مطابق ایک زرخیز مگر پسماندہ علاقے میں واقع ہونے اور اپنی غیر زرعی صنعت و حرفت کی وسیع رینج کے باوجود، لاہور کے لیے اپنی متنوع معاشی ضروریات کو پورا کرنا ممکن نہیں تھا۔ اس ضرورت میں شدت تب آئی جب پڑوسی علاقوں سے آفت زدہ لوگوں کی آمد کی وجہ سے شہر کی آبادی میں اضافہ ہوا۔
بادشاہ نامہ میں لکھا ہے کہ 1642 میں شدید بارشوں کے باعث لگ بھگ 30 ہزار لوگ کشمیر سے یہاں آئے۔ بعض اوقات، شاہی فوجوں کی آمد سے شہر کے مضافات میں دکانوں اور ریستورانوں سمیت، عارضی بستی بنانے کی ضرورت پڑ جاتی تھی۔
‘سوداگر مراد آباد سے گندم، سرہند سے چاول، آگرہ سے مصالحہ، ملتان سے چینی، مسولی پٹنم اور مونگا پٹنم سے باریک سوتی کپڑے، احمد آباد سے پگڑیاں اور ریشم کا سامان اور پٹنہ سے لاہور کی منڈی میں ریشم لاتے تھے۔
مغربی ایشیائی تاجر یہاں سے قندھار اور اصفہان کے زمینی راستے سے نیل لے جاتے، آرمینیا کے سوداگر یہاں چوڑے عرض والا ایرانی کپڑا لاتے۔ شہر کے بیوپاری مختلف اشیا کو کشتیوں میں راوی کے ذریعے ملتان اور ٹھٹھہ پہنچاتے۔
As per Akbarnama & Ain-e-Akbari, large ocean going ships were built under King Akbar’s reign at Lahore, Pakistan. Ist ship built in June 1592 used 3000 wooden planks, 12 ton iron & 100 ft keel similar to European galleons. Lahore Port was located near Sheranwala (Khizri) Darwaza. pic.twitter.com/8TyXfKPfHm
— Ticker (@hannan021) July 21, 2021
فرانسسکو پیلسیئرٹ اورڈبلیو فوسٹرکی لکھی یہ تفصیلات مغل بادشاہ جہانگیر کے دور کی عکاس ہیں۔
لاہور غیر ملکیوں سے بھرا رہتا، مقامی تاجروں کی امارت اور پختہ اینٹوں سے بنی اعلیٰ عمارتوں کی کہانی لکھی ہوتی ‘جو تحفظ اور خلوت کے لیے راستے سے چھ سات قدم بلند ہوتیں۔‘
جہاز رانی سے دلچسپی مغل شہنشاہوں جہانگیر، شاہ جہاں اور اورنگ زیب کے تحت بھی جاری رہی۔ اس کا مقصد تجارت اور حج ہوتا تھا۔
دریا رخ تو بدلتا ہی رہا
خواجہ شمس الدین عظیمی لکھتے ہیں کہ 1662 میں اس کا رخ بدلنے کی وجہ سے شہر کو لاحق خطرے کے پیش نظر بادشاہ اورنگ زیب نے اس کے کنارے تقریباً چار میل کے فاصلے تک پختہ اینٹیں اور چونا گارے سے ایک بڑا بند تعمیر کروا دیا جس سے یہ شہر تباہی سے بچا رہا۔
نئی دہلی کی جواہر لال یونیورسٹی سے منسلک تاریخ دان مظفر عالم لکھتے ہیں کہ سترھویں صدی تک پنجاب، ملتان اور سندھ اور دلی کے شمال میں چھوٹے بڑے شہر ابھر چکے تھے۔ یہ سڑکوں اوردریائی راستوں سے ایک دوسرے کے ساتھ جڑے تھے۔
رمیش چندر شرما اور امیت مکھر جی ابتدائی سترھویں صدی کے لاہور پر اپنی تحقیق میں لکھتے ہیں کہ جٹمل ناہر نے جہانگیر کے دور میں برج بھاشا اور کھڑی بولی میں پچپن اشعار پر مشتمل ‘لاہورکی غزل’ لکھی۔
شاعر لکھتے ہیں کہ جب انھوں نے لاہور کو دیکھا تو دوسرے شہر بھول گئے اور ان کی یہ بات ایسی غلط بھی نہیں کیونکہ ڈبلیو فنچ کے مطابق تب یہ شہر مشرق کا سب سے عظیم شہر تھا۔ ایچ کے نقوی کا کہنا ہے کہ کوئی ایشیائی یا یورپی شہر اس جیسا نہیں تھا، نہ وسعت میں، نہ دولت میں اور نہ آبادی میں۔
ناہر کے اشعار کے مطابق لاہور کی آبادی 12 کوس کے محیط میں تھی۔ اونچی دیوار، بارہ دروازے جہاں نوبت بجتی، ہاتھی اور محافظ گرز اور نیزوں کے ساتھ کھڑے ہوتے جنھیں دیکھ کر دل کانپ کانپ جاتا۔ راوی لاہورکے ساتھ ساتھ بہتا تھا۔ یہاں ہمیشہ بہت سی کشتیاں ہوتیں اور صاف شفاف پانی میں بطخیں اور بگلے تیر رہے ہوتے۔
پنجاب میں دریائی جہاز رانی کے بارے میں، ہاکنز کے تاجر ساتھی ولیم فنچ (1609-1611) کی گواہی ہے کہ لاہور سے راوی اور سندھ دریاوں کے راستے، 60 ٹن یا اس سے اوپر کی کئی کشتیاں سندھ میں ٹھٹھہ تک جاتی تھیں اور یہ تقریباً 40 دنوں کا سفر تھا۔
اے حمید دریا کے رخ بدلنے کا ایک واقعہ محمد شاہ بادشاہ کے دور کا بتاتے ہیں
‘عہد مغلیہ میں دریا کے پار شاہدرہ کے نواح میں امرا نے بہت سے باغات اور مکانات تعمیر کروائے تھے مگر جب دریا نے محمد شاہ بادشاہ کے زمانے میں اپنا رخ شہر کی طرف سے ہٹا کر شاہدرہ کی طرف کر لیا تو بہت سے باغ دریا برد ہو گئے اور جو باقی بچے وہ زمانے کی دست برد سے مٹ گئے۔‘
وہ بتاتے ہیں ’محمد شاہ بادشاہ کے زمانے میں بند عالمگیری کی وجہ سے دریا کا بہاؤ باغ کی دیواروں تک آ پہنچا۔ سکھوں کے زمانے تک دریا نے باغ کی دیواروں کو منہدم کر کے شاہی محلات کا صفایا بھی شروع کر دیا۔ چنانچہ رنجیت سنگھ کے آخری دس سالوں میں پانی کے بہاؤ نے بارہ دری کی قدم بوسی شروع کر دی۔
یہ 1830 سے 1832 کے زمانے کا ذکر ہے۔ ایک سو سال سے زیادہ عرصہ راوی کی لہریں بارہ دری سے ٹکراتی رہیں۔ پہلے میرزا کامران کا عالی شان باغ دریا برد ہوا پھر بارہ دری بھی دریا کی نذر ہونے لگی اور وہ دریا کے اندر آ گئی۔’
راوی کے رخ بدلنے پر کامران کی بارہ دری اب دریا میں ابھرے ایک جزیرے پر ہے۔
مزید بلاگز پڑھنے کیلئے اس لنک پر کلک کریں : بلاگز