گورنر سوات میاں گل عبدالحق جہانزیب کے پوتے شہریار امیرزیب کے مطابق برطانیہ کی ملکہ الزبتھ نے فیلڈ مارشل ایوب خان کے دورہ پاکستان کی دعوت کو ان کے سوات میں قیام سے مشروط کر دیا تھا۔
ملکہ برطانیہ نے 1961 میں پاکستان کا چھ روزہ دورہ کیا، جس کے لیے وہ 2 فروری 1961 کو کراچی آئیں، جہاں ان کا استقبال نواب آف کالاباغ، نواب امیر محمد خان اور پاکستان کے صدر فیلڈ مارشل ایوب خان نے کیا تھا۔
ملکہ برطانیہ کا دورہ کراچی سے شروع ہوا اور ان چھ دنوں میں انہوں نے لاہور سمیت درہ خیبر (اب ضلع خیبر)، پشاور کے ورسک ڈیم، مردان اور سوات کا دورہ کیا۔
خیبر پاس پر تقریباً 60 ملکانوں نے ان کا استقبال کیا اور امریکی خبر رساں ایجنسی اے پی کے مطابق مقامی باشندوں نے روایتی طور پر ملکہ اور ان کے شوہر کو دنباس کا تحفہ پیش کیا۔
7 فروری 1961 کو سوات کے دورے پر ملکہ اور ان کے شوہر شہزادہ فلپ سوات کے شاہی خاندان کے سرکاری مہمان اور ریاست سوات کے آخری ولی میاں گل عبدالحق جہانزیب ان کے میزبان تھے۔
سوات کے دورے کے دوران ملکہ نے سوات کے ایک سیاحتی مقام مرغزار میں واقع سوات کے شاہی خاندان کی گرمائی رہائش گاہ ‘وائٹ پیلس’ کا بھی دورہ کیا۔
برطانوی جریدے ‘راؤنڈ ٹیبل’ نے ملکہ الزبتھ اور ان کے شوہر کے سوات کے دورے کی تفصیل دی ہے۔
اس جریدے میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق جس دن ملکہ سیدو شریف پہنچی اس رات کو تیز بارش ہو رہی تھی جس کی وجہ سے رات کو موسم بہت سرد ہو گیا تھا۔
اخبار کے مطابق بارش کے باعث ملکہ کو دیکھنے کی کوشش کرنے والے سوات کے لوگوں کو بھی سیدو شریف پہنچنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
آس پاس کے علاقوں کے لوگ سرد رات میں سورج نکلنے سے پہلے ملکہ کو قریب سے دیکھنے کے لیے پیدل چلے آرہے تھے۔
اسی اخبار میں پشاور سے سوات جانے والے راستے کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ راستے میں مقامی لوگوں نے ملکہ کا استقبال کیسے کیا۔
اخبار میں لکھا ہے کہ لوگ گھر کے برتن (مگ اور دیگر اشیاء) لے جاتے تھے اور راستے میں اونچی محرابوں پر الٹا رکھ دیتے تھے جو گنبد نما منظر پیش کرتا تھا۔
اس کے علاوہ مقامی لوگ جو کچھ بھی ملے یعنی میز، کرسیاں، انڈوں کی ٹوکریاں، مالٹے، چائے کے برتن اور اخبارات میں چھپی ملکہ کی تصویریں لے کر سڑک پر ان کے استقبال کے لیے کھڑے ہوگئے۔
گورنر سوات کے پوتے شہریار امیرزیب نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ خود اس وقت پیدا نہیں ہوئے تھے لیکن میرے والد اور دادا کہتے تھے کہ فیلڈ مارشل ایوب خان نے 1960 میں برطانیہ کا دورہ کیا اور انہوں نے ملکہ کو پاکستان آنے کا کہا اور دورے کی درخواست کی تھی۔
شہریار نے کہا: ‘ملکہ اور ان کے شوہر نے پاکستان کا دورہ اس شرط پر کیا کہ وہ اپنے دورے کے دوران سوات جانا چاہتے ہیں۔ ایوب خان نے اس پر اتفاق کیا۔
اسی بات کا ذکر میاں گل عبدالحق جہانزیب کی سوانح عمری میں بھی ہے جو ناروے کے مورخ فریڈرک بارتھ نے لکھی ہے۔
سوانح عمری میں لکھا ہے کہ ‘ایوب خان ملکہ کے ساتھ موجود تھے اور انھوں نے ملکہ سے پاکستان آنے کی درخواست کی اور اس دوران گفتگو کے دوران ملکہ کے شوہر شہزادہ فلپ نے اچانک کہا کہ ‘اس شرط پر کہ ہم بھی سوات جائیں گے۔’
شہریار نے کہا کہ اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اس وقت سوات کی خوبصورتی کے حوالے سے مختلف بین الاقوامی اخبارات و رسائل میں مضامین لکھے گئے تھے۔
شہریار نے بتایا کہ ‘ملکہ اور ان کے شوہر فلپ دونوں سوات کی ذاتی رہائش گاہ سیدو شریف کے گیسٹ ہاؤس میں دو دن رہے اور ملکہ کے شوہر ایک دن کے لیے مرغزار کے سفید محل میں شکار کے لیے گئے تھے۔ ‘
شہریار نے کہا: جس کمرے میں ملکہ ٹھہرتی تھی وہاں ایک واش روم تھا۔ جب اس دورے کا اہتمام کیا گیا تو کہا گیا کہ ملکہ اور ان کے شوہر کو علیحدہ واش رومز کی ضرورت ہوگی۔ ادھر اسی کمرے میں عجلت میں ایک اور واش روم بنایا گیا جو آج بھی موجود ہے۔
سوات سرینا ہوٹل کی ویب سائٹ کے مطابق سرینا ہوٹل کے احاطے میں واقع ‘وزیر ہاؤس’ سوات کے دور میں سرکاری مہمانوں کے لیے بطور گیسٹ ہاؤس استعمال ہوتا تھا اور اسے 1936 میں تعمیر کیا گیا تھا۔
1961 میں، نئے سرینا ہوٹل بلاک کا افتتاح بھی ملکہ الزبتھ اور ان کے شوہر شہزادہ فلپ نے کیا تھا۔
وزیر ہاؤس کو بعد میں سوات ہوٹل میں تبدیل کر دیا گیا اور اب یہ سرینا ہوٹل کے ساتھ ہے جہاں کوئی بھی مہمان ٹھہر سکتا ہے۔
وزیر ہاؤس ایک برطانوی دور کا فن تعمیر ہے اور اس کی مرمت سرینا ہوٹل نے کی ہے۔
مزید بلاگز پڑھنے کیلئے اس لنک پر کلک کریں : بلاگز