ہم اکیسیوں صدی کے باسی ہیں جہاں ہر روز کوئی نہ کوئی نئی ایجاد ہو رہی ہے، نت نئی ایجادات کا سلسلہ جاری و ساری ہے جسے انسانی عقل دیکھ کر حیران رہ جاتی ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں ٹیکنالوجی اور سائنس اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ انٹرنیٹ نے دُنیا کو سمیٹ کر ایک مٹھی میں بند کر دیا ہے جس سے انسانوں کے بیچ کی دوریاں ختم ہو گئی ہیں۔ یہ سب کچھ ٹیکنالوجی کی بدولت ہی ممکن ہوا ہے۔ ہم ان ایجادات کو بُرا نہیں کہہ سکتے کیونکہ کوئی بھی چیز جو ایجادت کی کسوٹی پر پورا اترے وہ بُری نہیں ہوتی بلکہ اسکا استعمال اچھا یا بُرا ہوسکتا ہے۔ اگر موبائل فونز کی طرف نظر دوڑائیں تو اسکا معاملہ بھی یہی ہے۔ موبائل فونز کے ساتھ ساتھ لیپ ٹاپ، کمپیوٹر، ٹیپ ریکارڈر، واکی ٹاکی، کیمرہ اور بہت سی ایجادات کا استعمال ڈھکی چُھپی چیز نہیں رہا کیونکہ یہ چیزیں ہمیں سہولیات فراہم کرتی ہیں۔ ان چیزوں نے جہاں دوریاں سمیٹ کر رکھ دی ہیں وہیں ان سے بہت سی بُرائیوں نے بھی جنم لیا ہے۔ عریانی فحاشی اور دیگر مسائل معاشرے میں انہی کی وجہ سے جنم لے رہے ہیں۔
ماہرین نے تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ ایک طرف موبائل فون ، سیلولر سروسز نے ہمارے لئے جہاں بہت سی آسانیاں پیدا کی ہیں وہاں دوسری طرف اس نے بہت سے خطرناک مسائل کھڑے کر دئیے ییں۔ سائنس دانوں نے امریکی قانون سازوں کو موبائل فون کے استعمال سے پیدا ہونے والے خطرناک مسائل سے آگاہ کیا ہے۔
یونیورسٹی آف پٹسبرگ کے کینسر انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر رونلڈ کے مطابق حالیہ دور میں موبائل فون کا استعمال بڑھ چکا ہے جس سے بچوں میں کینسر کا خدشہ بڑھتا جا رہا ہے کیونکہ موبائل فون سے خارج ہونے والی شعاعیں بالغوں کے مقابلے میں بچوں کے دماغ میں جلد گھس جاتی ہیں جس سے بچوں کی صحت کے مسائل بڑھ سکتے ہیں۔ یونیورسٹی کے اس انسٹی ٹیوٹ کا کہنا ہے کہ بچے صرف ایمرجنسی کی صورت میں ہی موبائل فون کا استعمال کریں تاکہ اسکی شعاعوں سے بچا جا سکے۔
رائل سوسائٹی آف لندن کی ریسرچ کے مطابق موبائل فون کے استعمال، موبائل میں آن لائن گیمز، کمپیوٹر اور ویڈیو گیمز کے استعمال اور اثرات میں فرق ہے کیونکہ گیمز کے اثرات انکی نوعیت پر منحصر ہیں، پُر تشدد گیمز، ایکسر سائز گیمز کی نسبت زیادہ نقصان دہ ہوتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایکسر سائز انسان کو صحت مند رکھتی ہے جبکہ ویڈیو گیمز کے ساتھ ایسی گیمز جو بیٹھ کر کھیلی جاتی ہیں وہ صرف وزن میں اضافہ کا سبب بنتی ہیں اور وزن میں اضافہ بہت سی بیماریوں کو جنم دیتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق ویڈیو گیمز میں بچے ایکسر سائز کی نسبت زیادہ توانائی صرف کرتے ہی, جو بچے ایک گھنٹے کے لئے ویڈیو گیمز کھیلتے ہیں وہ زیادہ ہم آہنگ ہیں ان بچوں کی نسبت جو ویڈیو گیمز نہیں کھیلتے، لیکن جو بچے تین گھنٹے سے زیادہ ویڈیو گیمز کھیلتے ہیں وہ مجموعی طور پر اپنی زندگی سے مطمئن نظر نہیں آتے۔
یہ کہنا کسی بھی طرح غلط نہ ہو گا کہ پُر تشدد ویڈیو گیمز کے بچوں پر اثرات خطرناک ہیں اس لئے اساتذہ سے گزارش کی گئی ہے کہ کلاس روم میں ایسے ویڈیو گیمز کا انتخاب کریں جس میں تشدد نہ ہو، جو کھیل میں تعلیم کی طرف راغب کرنے والی ہوں۔ بچوں کو کچھ وقت کے لئے مفید گیمز کھیلنے کی اجازت دینا والدین کے لئے بہتر ہے، ان گیمز کے ساتھ ساتھ بچوں کی جسمانی ورزش کی طرف توجہ دینا بھی بہت ضروری ہے جس سے بچے کاہلی اور موٹاپے سے دور رہ سکیں گے۔
عام طور پر والدین ویڈیو گیمز کو اپنے بچوں کی ذہنی نشوونما کا دشمن سمجھتے ہیں لیکن جدید تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ ویڈیو گیمز سے بچوں میں بڑھنے کی صلاحیت بہتر ہونے کے علاوہ ریاضی اور سائنس میں بھی انکی کارکردگی بہتر ہوتی ہے۔ آسٹریلیا کی ایک یونیورسٹی کے پروفیسر کی سربراہی میں ماہرین کی ٹیم نے ویڈیو گیمز کے بچوں کی ذہنی نشوونما پر اثرات کے حوالے سے تحقیق کی جس کے مطابق بچوں میں روزانہ ویڈیو گیمز کھیلنے سے انکی قوتِ فیصلہ اور حافظہ پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں جو کہ تعلیم کے میدان میں فائدہ مند ثابت ہوتے ہیں۔ لیکن ایک سال کے اندر ہی ان گیمز کے نقصانات بھی سامنے آئے ہیں۔ پب جی گیم میں موجود اینی میشن کی روشنی سے نکلنے والی شعاعیں کثرت سے گیمز کھیلنے والوں میں مرگی کا عارضہ پیدا کر دیتی ہیں۔ اس کے علاوہ ویڈیو گیمز کھیلنے والوں کے ہاتھوں میں رعشہ پیدا ہو جاتا ہے۔ مزید گیم میں برق رفتاری کا مظاہرہ کرنے کی وجہ سے ہڈیوں میں تکلیف لاحق ہو جاتی یے۔ مزید کھیلنے سے آنکھوں کی حرکت تیز ہو جانے کی وجہ سے آنکھوں پر بُرا اثر پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ گیم کھیلنے والے خود اعتمادی کی کمی کے ساتھ ساتھ نفسیاتی مریض بن کر رہ جاتے ہیں ۔ والدین کے لئے ضروری ہے کہ اگر بچے ویڈیو گیمز کھیلنا چاہتے ہیں تو انہیں انسٹالڈ گیمز کھیلنے کی اجازت دیں تاکہ وہ انٹرنیٹ کے غلط استعمال اور برقی شعاعوں سے محفوظ رہ سکیں۔
بقلم: امتل ھدٰی