کہتے ہیں زندگی کا دوسرا نام سفر ہے۔ یہ اور بات ہے کہ دن میں دیکھے گئے خوابوں کو پورا کرنے کے لئے زندگی میں اردو والا سفر بھی خوب کرنا پڑتا ہے اور انگریزی والا بھی، بذات خود موصوف کو دونوں طرح کے سفر کرنے کا شرف حاصل ہے۔
بچپن سے ہی جب اپنے دوستوں، سجنوں اور عزیز و اقارب کی یورپ اور دوسری دُنیا میں مقیم تصویریں دیکھتا تو رشک بھرے انداز سے ہمیشہ کہتا کہ کبھی ہم بھی ان ممالک میں کھڑے مسکرائیں گئے اور کبھی ان ممالک کے خوبصورت راستوں پہ چل کر اپنے آپکو محضوض کریں گئے کیونکہ لوگ ہمیشہ ان خوبصورت لمحات کو وکٹری سائن بنا کر اپنی یادوں کو تصویروں کی صورت میں قید کر لیتے تھے۔ میں بچپن سے ہی نجانےکیوں ان تصویروں کی طرف کِھنچا چلا جاتا تھا ان تصویروں کے علاوہ گھر آۓ کیلنڈرز پہ چپھے برف سے ڈھکے خوبصورت مکانوں، ریلوے اسٹیشنوں اور پہاڑوں کے منظر اور ٹی وی پہ چینل بدلتے جیسے ہی نظر ان خوبصورت ممالک پر پڑتی تو ہاتھ تھم سا جاتا دل رک سا جاتا,اور تو اور ستم یہ کے جب ان ممالک کی تاریخ پر نظر ڈالی تو جناب ہم پر یہ گمان ہوا کہ جو یورپ کے پہاڑوں، خوبصورت وادیوں اور لوگوں سے محبت کا شوق ہے نا یہ تو گٹھی کی صورت میں ہم میں گُھل مل چکا ہے, اس حقیقت کا جب ہم پہ انکشاف ہوا تو روح بےتاب ہو گئی کہ کسی طور اڑ کر ان یورپ کی خوبصورت وادیوں میں پہنچ جائیں.جہاں بس الّلہ پاک ہیں انکی قدرت انکی مصوری,انکی رحمت اور معجزات۔
میری یورپ کی محبت آہستہ آہستہ اور
بڑھتے بڑھتے عشق کی انتہا تک پہنچ چکی اور عشق بھی ایسا جو ناسور بنتا جائے۔ اب تو خوابوں میں بھی اسپین, فرانس, سویڈن ڈنمارک اور نہ جانے کیا کیا نظر آنے لگا تھا۔ اس لاعلاج عشق کی دوا کے لئے جب زندگی میں پہلی بار یورپیئین ہنگری کے خوبصورت اور حسین شہر بُداپسٹ کا پاکستان کے شہر لاہور سے سفر شروع کیا تو ہوائی گاڑی اپنے مسافروں کو یونسؑ کی مچھلی جیسے پیٹ میں اولادِ یونس کو اپنے اندر سما کر لاہور کی فضاوّں سے بھگاتے ہوئے وادیِ جنت کے اطراف میں دیدہ زیب منزل کی طرف لے جا رہی تھی، ہر مسافر جوش و جذبے میں برجمان اپنی منزل کی طرف پہنچ کر وادیِ یورپ کو سر کرنے کے لیے بے تاب بیٹھا چالیس ہزار فٹ کی بُلندی پر فضاوّں کو اپنے پیروں تلے روند رہا تھا۔
وقت کی کروٹ بدلی اور ہم مڈل ایسٹ کی فضاوّں کے جھونکے میں پہنچے اور وہاں قطر کے خوبصورت ائیرپورٹ کو چار گھنٹے کے لئے دیکھتے گزار دئیے۔
قطر کے خوبصورت ائیرپورٹ پر سورج کے حٙسین نظارے کو اپنے کیمرہ میں سب مسافروں نے بند کیا اور دوبارہ بادلوں کو اپنی فضائی گاڑی کی اُڑان کے ساتھ ساتھ سفر کرتے دیکھ ہم یورپ کی کہکشاں میں جا پہنچے۔
جب مشرق وسطیٰ کی وادیوں سے انسان کا گزر ہوتا ہے تو پھر ایشیاء و یورپ کے ان عظیم و شان پہاڑوں پر نظر پڑتی ہے جنہیں دیکھتے ہی کیفیت ایسی کے آنکھوں میں بے اختیار آنسو اور دل میں صرف ایک ہی بات بس اپنے رب کے حضور فوراً سجدہ ریز ہو جائیں اور حیرت ہے یہ صرف پہلی بار ہی کی کیفیت نہیں بلکہ ایسا ہونا ہر بار کی روایت بن جاتی ہے۔
اور یہ کیف و سرور کی کیفیت صرف وہی محسوس کر سکتا ہے جو خود دیوانہ وار اس یورپ کے عشق میں مبتلا ہو۔ یہاں قدرت کا ہر رنگ انسان کو لاجواب کر دیتا ہے، بےشک میرا رب ہی یہ سب کر سکتا ہے۔
تو جناب طیبعت کچھ ازلی سی یورپ کے لئے جنگجو ٹھہری اور ہم بھی کہاں ٹلنے والے تھے ہم نے بھی یہ ٹھان رکھی تھی کہ نوکری کبھی بھی یورپ کے عشق میں آڑ نہیں بنے گی کیونکہ ان یورپئین وادیوں کی زیارت کو جانا اب واجب نہیں اوجب ہو چکا تھا۔ ان خوبصورت لمحات کو اپنی قید میں کرنے کے لئے بس ہم ہیں اور ہمارا موبائل، جس کےساتھ ایک ہمت اور جستجو ہے آگے بڑھتے رہنے کی۔
یورپ کی حدود میں داخل ہوتے ہی جب آنکھ کا نظارہ برف سے ڈھکے آسمان کو چُھوتے پہاڑ,سفید خوبصورت چشمے,خدا کی رحمت سے بھری پر نور وادیاں,رنگ رنگ کی حسین جھلیں ہماری ہم سفر ہوتی ہیں تو ہمیشہ
دلِ نادان نے عشق کے ہاتھوں بےبس ہو کر زندگی کی سب سے بڑی خواہش کو ایک مشن بنا لیا کہ یورپ کی ان خوبصورت وادیوں، دریاوّں، تاریخی جگہوں اور چوٹیوں پہ پہنچ کر خدائے علی و اعلیٰ کی حمد و ثناء اور اسکی خوبصورت مصوری کو دُنیا کے سامنے پیش کریں گئے جسے ہم نے سفر کی صورت میں یکم فروری2021ء سے شروع کیا ہے
بقلم: سکندر پرویز باجوہ (ہنگری)