سینیٹ پاکستان کے دستور میں وہ ادارہ ہے جہاں تمام صوبوں کی نمائندگی مساوی ہے۔ پارلیمنٹ کا حصہ ہونے کے حوالے سے یہ ادراہ قانون سازی کے لئے اہم تو ہے لیکن قومی اسمبلی کے پاس یہ اختیار بھی موجود ہے کہ وہ کسی قانون کی راہ میں رکاوٹ بننے کی صورت میں سینیٹ کو بائی پاس کر دے۔ اس لئے اس ادارے میں اکثریت کا ہونا اہم تو ہے لیکن اتنا نہیں کہ اس کے بغیر حکومت ہی آگے نہ بڑھ سکے۔
اسی ادارے میں اپنا اثر رسوخ بڑھانے کے لئے حکومت اور اپوزیشن اتحاد کے درمیان سخت ترین تناوّ اور کشیدہ سیاسی فضا میں سینیٹ انتخابات آئین کے مطابق خفیہ رائے شماری سے 3 مارچ کو مکمل ہو گئے۔ اس ایوانِ بالا کی
37
نشستوں کے لئے 78 اُمیدواروں کے درمیان اعصاب شکن دنگل مکمل ہو گیا بظاہر حُکمران اتحاد کی سینیٹ الیکشن میں عددی اکثریت یقینی تھی لیکن اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم بھی عددی اکثریت کا بہت بڑا دعویٰ الیکشن سے پہلے کر چُکی تھی۔ سینیٹ الیکشن میں سب سے اہم اور سخت مقابلہ سابق وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی اور وزیرِ خزانہ خفیظ شیخ کے درمیان تھا اور اس سیٹ کا الیکٹورل کالج قومی اسمبلی کا فلور تھا۔
حکومت اور اپوزیشن دونوں اس اہم مقابلے میں یقینی کامیابی کے دعوےٰ کر رہے تھے تاہم بظاہر اس مقابلے میں جیت خفیظ شیخ کی نظر آ رہی تھی کیونکہ حکومت کے اتحادی خفیظ شیخ کو ووٹ دینے کی یقین دہانی کر چُکے تھے۔ پنجاب سے سینیٹ کے اُمیدوار بلامقابلہ منتخب ہونے کے بعد اب سینیٹ کی 37 نشستوں پر مجموعی طور پر 78 اُمیدواروں کے درمیان قومی، سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ اسمبلیوں میں پولنگ شام پانچ بجے تک ہوئی۔ ایوانِ بالا کے 104 اراکین میں سے 52 اراکین اپنی 6 سالہ مُدت ختم ہونے کے بعد 11 مارچ کو ریٹائر ہو جائیں گے جس میں قبائلی اضلاع کے 8 میں سے 4 سینیٹرز بھی شامل ہیں تاہم قبائلی اضلاع کے خیبر پختونخواہ میں ضم ہونے کی وجہ سے یہ چار نشستیں ختم ہو چکی ہیں جس سے سینیٹ کی مجموعی تعداد 100 رہ جائے گی۔
صوبائی سطح پر پنجاب سے 11 سینیٹرز بلا مقابلہ منتخب ہو گئے جبکہ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان سے 12, سندھ سے 11 جبکہ اسلام آباد سے 2 سینیٹرز کو منتخب کیا گیا۔ 11مارچ کو اپنی چھ سالا مُدت ختم ہونے پر ریٹائر ہونے والے سینیٹرز کی 60فیصد سے زائد تعداد اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھتی ہے۔ اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کی عددی صورتحال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یہی خیال تھا کہ تحریکِ انصاف سینیٹ کی بڑی جماعت بن جائیگی مگر ایسا نہ ہو سکا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے وقت کی کمی کے باعث ہونے والے سینیٹ انتخابات آئین و قانون میں دئیے گئے طریقہ کار کے مطابق ماضی کی طرز پر ہی منعقد کرنے کا فیصلہ کیا۔ جو کہ دفعہ 226 کے تحت خفیہ رائے شماری تھی۔ مبینہ طور پر ہارس ٹریڈنگ، ضمیر کے سوداگروں اور ووٹ بھیچنے اور خریدنے والوں کو پکڑنے کا میکنزم جسے اوپن بیلٹ کہتے ہیں سینیٹ الیکشن میں لاگو نہیں ہو سکا۔ حکمران جماعت ماضی میں ہونے والی اس ہارس ٹریڈنگ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کروانے کی حامی تھی، تاکہ ضمیر کے سوداگروں کو روکا جا سکے کیونکہ سابقہ سینیٹ الیکشن میں پی ٹی آئی کے ایم پی ایز پر پیسے لینے کا الزام تھا جس پر 20ممبران صوبائی اسمبلی کو پی ٹی آئی سے نکالا بھی گیا تھا مگر اپوزیشن نے حکومت کی اوپن بیلٹ کی تجویز یکسر مسترد کر دی۔
وزیرِ اعظم عمران خان اپنی تمام سرکاری مصروفیات منسوح کرتے ہوئے سینیٹ انتخابات کے لئے پی ٹی آئی کی انتخابی مہم کے سلسلے میں وزراء، معاونین خصوصی اور حکومتی اور اتحادی اراکینِ قومی اسمبلی سے ملاقاتیں کرتے رہے اور کہتے رہے کہ مُلک میں سیاسی عمل بہت مہنگا ہو چکا ہے مگر اس میں استقامت دکھانا بہادری ہے کیونکہ سیاست ارب پتی اور کروڑ پتی لوگوں کا کھیل بن چکا ہےاور یہی لوگ جمہوریت کے عمل کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔انتخابات سے قبل وزیرِ اعظم عمران خان نے وزارء کے ضمیروں کو جھنجھوڑنے کی کافی کوشش کی لیکن وہ بے سود ثابت ہوئی۔
نتائج کے مطابق پی ڈی ایم کے اُمیدوار اور سابق وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کو 169 جبکہ انکے مدِ مقابل وزیرِ خزانہ خفیظ شیخ کو 164 ووٹ ملے ، اپوزیشن اُمیدوار نے حکومتی اُمید وار کو 5 ووٹوں سے ہرا دیا ۔ بلاشبہ حکومت کو انتخابی نتائج پر اعتراض کا حق حاصل ہے مگر اس کے علاوہ تحریکِ انصاف کی قیادت کو اپنی صفوں کا جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے، سینیٹ انتخابات میں کرپشن ہوئی یا دیگر عوامل کے باعث حکومتی اُمیدوار کو شکست ہوئی کچھ بھی ہو زمینی حقائق یہی ہیں کہ حکومتی صفوں میں سے بعض اراکان نے اپنی ہی جماعت سے بغاوت کی ہے دوسرے الفاظ میں حکومتی صفوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اسے کسی بھی موقع پر دھوکہ دے سکتے ہیں۔
میرے خیال سے اب اگر عوام اور سیاسی جماعتیں چاہتی ہیں کہ ہمارے ساتھ دھوکہ نہ ہو تو سیاسی جماعتیں ٹکٹ دیتے ہوئے اور عوام ووٹ دیتے ہوئے ایماندار اور مخلص افراد کا اانتخاب کریں تاکہ آئندہ پانچ سال تک اپنے نمائندوں کی طرف سے بے فکر رہ سکیں۔
بقلم: کاشف شہزاد