سینیٹ پاکستان میں وفاقی اکائیوں کے حقوق کے تخفظ کا ضامن ادارہ تصور کیا جاتا ہے۔ جمہوری و پارلیمانی روایات کے فروغ اور استحکام میں اسکا کلیدی کردار رہا ہے تاہم ایک دو عشرے سے سینیٹ کے انتخابات کے موقع پر مبینہ طور پر پیسے کی سیاست، بے جا اثر رسوخ کا استعمال اور ہارس ٹریڈنگ کا کلچر نہ صرف اس باوقار ایوان کے حقیقی چہرے کو مسخ کرتا آ رہا ہے بلکہ اسکی تابناک، جمہوری روایات اور تاریخی کردار کو کو بھی دھندلا کر رہا ہے، اس ادارے کا سربراہ چئیرمین سینیٹ صدرِ مملکت کی عدم موجودگی میں قائم مقام صدر کا عہدہ سنبھالتا ہے جو کہ ملک کی باگ دوڑ چلانے کے لئے سب سے اہم عہدہ تصور کیا جاتا ہے۔
اسی سینیٹ کی اسلام آباد کی نشست پر حکومت کی نشست اور اپوزیشن کی جیت کے بعد بہت سے نئے سوالات کھڑے ہو گئے ہیں۔ قومی اسمبلی میں ڈالے گئے ووٹوں کی بنیاد پر حکومت کی شکست کو وزیرِ اعظم پر عدم اعتماد بھی کہا جا رہا تھا جسکی وجہ سے وزیرِ اعظم نے ہاوّس سے اعتماد کا ووٹ لینے کا اعلان کیا۔
اس سلسلے میں وزیرِ اعظم کی طرف سے صدرِ مملکت عارف علوی صاحب کو ایک ایڈوائس بھجوائی گئی کہ وہ وزیرِ اعظم کے اعتماد کا ووٹ لینے کے لئے قانونی عمل پورا کریں چنانچہ صدرِ پاکستان کی طرف سے آئین کے آرٹیکل 91 کی شق 7 کے تحت وزیرِ اعظم سے یہ کہا گیا کہ وہ ایک بار پھر ایوان سے اعتماد کا ووٹ لیں۔ پی ڈی ایم کی طرف سے اس سارے عمل کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اس عمل کو نا صرف شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا بلکہ قومی اسمبلی کے خصوصی اجلاس سے ایک دن پہلے ہی بائیکاٹ کا اعلان بھی کر دیا، لیکن اپوزیشن کے بائیکاٹ کے باوجود 6 مارچ دوپہر 12 بجکر 15 منٹ پر شروع ہونے والےقومی اسمبلی کے اس خصوصی اجلاس میں وزیرِ اعظم عمران خان کی جماعت تحریک انصاف اور انکی اتحادی جماعتوں کے تمام ممبران موجود تھےاور اس موقع پر 178 ممبران نے وزیرِ اعظم پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا۔ وزیرِ اعظم کے اعتماد کا ووٹ لینے کا مقصد اپوزیشن کی پیسے کی سیاست کو بے نقاب کرنا تھا انہیں اگر اقتدار عزیز ہوتا تو وہ خاموش بیٹھ جاتے مگر اُن کے لئے عہدہ اہم نہیں بلکہ نظام کی تبدیلی اہم تھی جسمیں وہ کامیاب ہوگئے ۔ ماہرین کے مطابق اگر وزیرِ اعظم عمران خان ہاوّس میں اکثریت ثابت نہ کر پاتے تو کابینہ تحلیل ہو جاتی اور برسر اقتدار حکومت یکسر اپوزیشن جماعت میں تبدیل ہو جاتی۔
چونکہ آئین کی پاسداری ہر پاکستانی شخص اور ادارے کا فرض ہے، اگر کسی قانون یا طریقہ کار پر کسی کو کوئی اعتراض یا تحفظات ہیں تو اسے آئین میں درج طریقہ کار کے تحت ہی تبدیل کیا جا سکتا ہے، وقت کی مناسبت اور سیاسی جماعتوں کی ضرورت کے تحت قوانین میں تبدیلی دیر پا اور وسیع تر مفاد میں نہیں ہوتی، قانون میں تبدیلی کے وسیع تر اثرات اور سب کو قابلِ قبول بنانے کے لئے ضروری ہے کہ سب پارٹیاں, ادارے اور دیگر حلقے اپنی اپنی رائے اور مشاورت دیں، انکی اتفاقِ رائے سے جو تبدیلی آئے گی وہ دیرپا اور وسیع تر مفاد میں ہو گی۔ وزیرِ اعظم کا عہدہ چونکہ سربراہ حکومت کا عہدہ ہوتا ہے، وہ تمام اداروں کے قانون و آئین میں دئیے گئے اختیارات کے تحت سربراہ بھی ہوتے ہیں، سربراہ حکومت کو اگر کسی ادارے کی کارکردگی اور اسکے طریقہ کار پر تحفظات ہیں اور انکے کام سے مطمئن نہیں تو انہیں اس میں اصلاح کے لئے عملی اقدامات کرنے چاہیئں کیونکہ وزیرِ اعظم کے عہدے کا تقاضا ہے کہ وہ اداروں کی ساکھ میں اضافے کے لئے اقدامات کریں اور انہیں بہتر سے بہتر بنائیں۔
سینیٹ کے اس الیکشن نے حکومت اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ایک دوسرے کے مدِ مقابل کھڑا کر دیا ہوا ہے اور ان انتخابات کے پسِ منظر سے اُٹھنے والے طوفان میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے، اگر حکومت اور الیکشن کمیشن کے مابین زبانی تناوّ میں کمی واقع نہ ہوئی تو یہ ایک باعث تشویش صورتِ حال ہوگی۔ الیکشن کمیشن کے مطابق سینیٹ انتخابی عمل پر حکومت کے جو خدشات تھے آئینی بنیادوں پر اُنہیں سپریم کورٹ آف پاکستان نے تسلیم نہیں کیا جبکہ الیکشن کمیشن کا کام آئینی اور قانونی پیرا میٹرز کے مطابق انتخابی عمل کا انعقاد یقینی بنانا ہے اس سلسلے میں الیکشن کمیشن کی اپنی مرضی کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جبکہ وزیرِ اعظم خان کے مطابق الیکشن کمیشن نے جمہوریت کو نقصان پہنچایا ہے، اُن کا کہنا ہے کہ اگر سُپریم کورٹ نے موقع دیا تھا تو کیا 1500 بیلٹ پیپرز پر بار کوڈ نہیں لگایا جا سکتا تھا؟ اگر ایسا ہو جاتا تو آج جو ہمارے 15 16 لوگ بِکے ہیں ہمیں اُن سب کا پتہ چل جاتا۔
میرے خیال سے اداروں کی مضبوطی کا تصور اسی سے جڑا ہے کہ ادارے انفرادی خواہشات کی بجائے آئین و قانون کی پاسداری کریں۔ جہاں تک انتخابی نظام میں اصلاحات کی بات ہے تو اس میں دو رائے نہیں کہ جمہوری اداروں کی تقویت کے لئے یہ اصلاحات اہم ضرورت ہیں، اور صاف اور شفاف انتخابات جہموری نظام کے استحکام کے لئے ناگزیر ہیں یہ کام حکومت نے کرنا تھا۔ ہمارے مُلک کو جن مسائل کا سامنا ہےانکا حل یہی ہے کہ قومی اداروں کو مضبوط کیا جائے اسکے بغیر نہ ہم معاشی اعتبار سے مضبوط ہو سکیں گے اور نہ ہی سیاسی اور جمہوری لخاظ سے، اداروں کی مضبوطی کے لئےاُصول پسندی بنیادی شرط ہے جہاں جزو کی بجائے کُل کے مفادات کو مدِنظر رکھا جاتا ہے۔
بقلم: کاشف شہزاد