سن 1906ء میں جب ڈھاکہ میں آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں لایا گیا تو اسکے34 سال بعد 23 مارچ 1940 کو لاہور میں ایک قراداد پاس ہوئی جس میں لفظ پاکستان کا ذکر نہیں تھا، تاہم قرار داد میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ آل انڈیا مسلم لیگ کسی ایسے پلان کو قبول نہیں کرئے گی جس میں ہندوستان میں موجود مسلم اکثریتی ریاستوں کو مکمل آزادانہ حثییت میں کام نہیں کرنے دیا جائے گا، قرار داد میں اس ابہام کے باوجود ہندوستان کے اخبارات کی اس حوالے سے شہ سُرخیاں تھیں، 1940 سے 1947 کے عرصہ کے دوران آزادی کی تحریک جس سرد گرم ماحول سے گزری اس دوران کانگرس کی قیادت میں موجود انتہاء پسندوں کی ذہنیت اور انکا کردار کھل کر سامنے آ گیا، جس کے بعد ہندوستان کی مسلم آبادی اور مسلم لیگ کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہ تھا کہ وہ ایک آزادانہ ریاست کا مطالبہ کرئے، مگر 14 اگست 1947 کو جن علاقوں پر مشتمل پاکستانی ریاست کو آزادی ملی اس میں سب سے بڑا المیہ بنگال اور پنجاب کی تقسیم تصور کیا گیا، جس کے بعد میں نتائج بھی بھگتنا پڑے، سو قیامِ پاکستان کے وقت دُنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت ہوئی، لاکھوں مسلمان جن میں خواتین اور بچے شامل تھے نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے۔
پاکستانی قوم 23 مارچ کو ایک قومی دن کے طور پر مناتی ہے، مگر اس کی طویل تاریخ کا نسلِ نو کو علم نہیں نہ ہی اس بارے آنے والی نسلوں کو آگاہی دی جا رہی ہے، اب تو حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ہماری نسلوں کی اکثریت کو یومِ پاکستان اور یومِ آزادی کے دن کی افادیت کے بارے علم ہی نہیں کیونکہ انہیں اس کے بارے آگاہ کرنے والوں نے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی اور نوجوان نسل تو اب سوشل میڈیا کے گرداب میں جکڑی ہوئی ہے جس کے نوجوان نسل پر بُرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ 23 مارچ کے دن کا ذکر اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک ہماری نوجوان نسل بالخصوص تعلیمی اداروں، یونیورسٹیز میں پڑھنے والے طلباء و طالبات کو اسکی افادیت بارے آگاہ نہ کیا جائے اور انہیں یہ پتہ نہ ہو کہ 23 مارچ کی تاریخی اہمیت کیا ہے اور یہ ملک کیسے وجود میں آیا، مگر کسی حکومت یا حکمران نے اس بارے کبھی نہیں سوچا کہ وہ اپنی آئندہ نسل کو اس دن کے حوالے سے آگاہ کریں۔ 23 مارچ کا دن آتا ہے تو سرکاری طور پر چند ایک تقریبات بڑے شہروں میں منعقد ہوتی ہیں حالانکہ تاریخ گواہ ہے کہ 23 مارچ 1940 کو قراد داد پاس نہ ہوتی تو 14 اگست 1947 کو پاکستان آزاد ریاست کے طور پر دُنیا کے نقشے پر نہ آتا اور آج ان مسلمانوں کی اکثریت جو پاکستان میں سیاست کا کھیل کھیل رہے ہیں وہ آزادی نہ ہونے کی صورت میں ہندوستان میں غلامی کی سی زندگی گزار رہے ہوتے۔ نسلِ نو کو کیا پتہ کہ آزادی حاصل کرنے کے لئے ہمارے آباوّ اجداد نے کیا کیا جتن کئے جس کے نتیجہ میں عالمی نقشہ پر نئی ریاست کی لکیریں ابھری۔ ہمیں اپنی نسلِ نو کو بتانا ہوگا کہ قائد اعظم محمد علی جناح آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر تھے، عہدے کے لحاظ سے انکی زیرِ صدارت لاہور کے منٹو پارک میں آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس تھا جس میں شیرِ بنگال مولوی اے کے فضل حق مرحوم نے 23 مارچ 1940 کے روز تاریخ ساز قرار داد پیش کی جس میں برصغیر کے شمال مغرب اور شمال مشرق میں مسلمانوں کی اکثریت آبادی والے علاقوں پر مشتمل جداگانہ آزاد ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا گیا، اجلاس میں قرار داد کا منظور ہونا تھا کہ جنوبی ایشیاء کی آبادی کی اکثریت کی نمائندگی کی دعویدار آل انڈیا کانگریس جو پہلے آل انڈیا مسلم لیگ کو مسلمانوں کی نمائندہ جماعت ہی تسلیم نہیں کرتی تھی کے بڑے چھوٹے رہنماوّں سمیت انڈین پریس نے اس قرار داد کو قرار دادِ پاکستان کا نام دے کر اسکی بھرپور مخالفت کا بیڑہ اٹھا لیا، مگر مکار ہندووّں کی سر توڑ کوششوں، مخالفت، سازشوں، انگریز حکومت کی مسلم کش دشمنی اور مکارانہ پالیسیوں کے باوجود قراردادِ پاکستان کے منظور ہونے کے تقریباٙٙ ساڑھے سات سال بعد مسلمانوں کی مسلسل جدوجہد کے نتیجے میں اس مطالبے نے حقیقت کا روپ دھار لیا اور پاکستان ایک آزاد ریاست کی صورت میں وجود میں آ گیا، اس طرح 23 مارچ اور 14 اگست دونوں ہی ملک میں قومی دنوں کے طور پر منائے جاتے ہیں، ان دونوں دنوں کو ہم قومی تہوار کی حثییت سے بطور یومِ آزادی مناتے ہیں۔
مارچ 23 کی اہمیت کچھ یوں بھی بڑھی کہ 1956 میں اس دن کو پہلی بار سرکاری طور پر منایا گیا اور ملک کے تعلیمی اداروں میں طلباء و طالبات کو چھٹی دی گئی اور اس دن کے حوالے سے تقریبات کا انعقاد ہوا، جس کے بعد پاکستان کے اسلامی جمہوریہ بننے کے الفاظ سُننے کو ملے، اس طرح 23 مارچ کے دن کے ساتھ یومِ جمہوریہ کی نسبت جُڑ گئی، تاہم 7 اکتوبر 1958 کو ملک میں پہلے مارشل لاء کے ساتھ 1956 کا آئین منسوخ کر دیا گیا، پھر پاکستان کا آئین 1962 میں آیا جس میں انتظامی اور انصرامی ڈھانچہ میں بہت سی تبدیلیاں کی گئیں تاہم 1965 میں قومی اسمبلی نے پھر آئین میں ترمیم کی اور پاکستان کے آئینی نام میں اسلامی کا اضافہ کیا یوں پھر پاکستان اسلامی جمہوریہ پاکستان کہلانے لگا۔ 23مارچ وہ دن کے جس کے بارے بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے لیکن کالم چونکہ مختصر ہوتا ہے اس لئے راقمہ بھی اسے محدود لکھ رہی ہے یہاں بات اس امر کی ہے کہ ہم اپنی نوجوان نسل کو 23 مارچ 1940 اور 14 اگست 1947 کی قربانیوں کے بارے آگاہ کریں کہ پاکستان کا قیام کتنے جتن اور مشکل مرحلے کے بعد وجود میں آیا اور اس میں لاکھوں مسلمانوں کا خون شامل تھا، ملک کو معرضِ وجود میں آئے ہوئے تقریباٙٙ 74سال ہو چکے ہیں اب ہمیں اس دن کی نسبت سے عہد کرنا ہوگا کہ ہم اس ملک کی حفاظت کے لئے ایسے حکمران چُنیں گے جو اس ملک کی ترقی میں ہمیشہ حصہ دار بنیں گے، اس دن کی نسبت سے یہ بھی عہد کرنا ہوگا کہ ہم اس ملک کی حفاظت کے لئے اپنا حصہ ضرور ڈالیں تو پھر ہی یہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی عہد کرنا ہوگا کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو ان دنوں کی افادیت کے بارے آگاہ کریں گے اور ملک کی بقاء کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کرنے کا جذبہ پیدا کریں گے۔
بقلم: امتل ھدٰی