ہماری زندگی میں ہوا، پانی اور خوراک کی طرح سوشل میڈیا، پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا بھی لازم و ملزوم جگہ بنانے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ ہر طرف گہما گہمی ہے۔ کہیں فلمیں دِکھائی جا رہی تو کہیں فلمیں بنائی جا رہی ہیں اور کہیں سرائی جا رہی ہیں۔ بنانے والے، دیکھنے والے، چلانے والے، شور مچانے والے، ہٹ کروانے والے، فلاپ کروانے والے ہم سب وہ باسی ہیں جو تخت و تختہ دونوں کو سامنے رکھ کر سکرپٹ لکھتے ہیں۔ یقیناٙٙ کچھ خوبیاں انسان کو باکمال بنا دیتی ہیں جن میں سے ٹھنڈا دماغ، میٹھی زبان اور نرم دل نمایاں ہیں، مگر ہماری آج کل کی سیاست میں منافقت کا کردار زیادہ استعمال ہوتا جا رہا ہے۔ صبح کچھ اور شام کو یکسر کچھ اقتدار پسند بول رہے ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر سیاسی خبریں اور شارٹ سٹوری فلمیں کامیابی کے ساتھ دکھائی جا رہی ہیں۔ یہ سوشل میڈیا رنگین ہونے کے ساتھ ساتھ سنگین زیادہ ہو گیا ہے کیونکہ ہم سب دوسروں کے ساتھ ساتھ اپنی ذات کے ساتھ بھی حالت جنگ میں ہیں۔ جاہلوں کے سامنے اگر محبت کا نام لیا جائے تو ان کے ذہن میں ققط عورت کے جسم کا خاکہ بنتا ہے اسی طرح ہماری سیاست کا نام لیتے ہی منافقت، گالم گلوچ اور اُن نعروں کا خاکہ بن جاتا ہے جو ہم سب ایک دوسرے کی توہین کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ چین کا مقابلہ تو صرف کورونا وائرس سے تھا اس لئے انہوں نے اسکو قابو کر لیا مگر ہمارا مقابلہ جہالت، منافقت، چور بازاری، سستی مشہوری اور سیاست کی کُرسی سے ہے دیکھیں ہم کب تک اس سے جیت حاصل کر سکیں گے کیونکہ ہم نے اپنے آپکو دوسروں کے لئے آسان اور خود کے لئے بہت مشکل بنا دیا ہے۔ کھلم کھلا ایک دوسرے کو للکار رہے ہیں، سوشل میڈیا کی کھڑکیاں سب نے کھولی ہوئی ہیں مگر شعور اور ہدایت کا دروازہ سب نے بند کیا ہوا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہمارے سب سیاست دان مشترکہ طور پر پاکستان کے لئے اپنے خیر سگالی کے بیانات بھی سوشل میڈیا پر زیادہ سے زیادہ ڈالیں۔ کاش سب ملکر یہ بھی دعا کریں یا اللّٰہ پاکستان میں کسانوں کی سال بھر کی روزی گھر آنے کو تیار ہے، کسانوں پر رحم فرما اور بے وقت کی بارشوں اور آندھیوں سے انہیں محفوظ رکھ۔ مگر ہم سب اپنے گھر یعنی پاکستان کے لئے متحد نہیں اگر متحد ہیں تو صرف کُرسی اور اقتدار کے لئے۔
ہمارے معاشرے میں تنقید برائے اصلاح بھی کی جا سکتی ہے مگر ہم ایسا نہیں کرتے کیونکہ اصلاح کے لئے اخلاق کا ہونا ضروری ہے جس کے لئے ہم سب کو اچھے اخلاق سے مزین ہونا ہوگا کیونکہ بہترین اخلاق کبھی اکیلا نہیں رہتا اُسے اچھے پڑوسی مل ہی جاتے ہیں۔ واصف علی واصف کہتے ہیں کہ دوسروں کو معاف کرنا اصل میں خود کو معاف کرنا ہے۔ ریاستِ مدینہ میں اگر ہم اس عمل کو دہرائیں تو ہمارے ملک پاکستان میں بہترین انصاف، عدل اور صلہ رحمی کی مثال قائم ہو جائے گی۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا جو ادب میں کمزور ہے اس میں بُرائیاں زیادہ ہوتی ہیں، ہم سب کے اندر مختلف خطرات کے الارم بج رہے ہیں۔ صحت بیماری اور عذاب وغیرہ ہم سب کو اچانک کسی انہونی کا اندیشہ بھی لا حق رہتا ہے کیا ہی اچھا ہو اس سوشل میڈیا کے ذریعے سب سے گلے شکوے ختم کر کے سنگین زندگی کو رنگین قوسِ قزاح سے بھر لیں اور اپنی اٙنا کو خیر آباد کہہ دیں کیونکہ اٙنا اور تعلیم کسی کو تمیز نہیں سیکھاتی، ہمارے ماں باپ کم پڑھے لکھے تھے لیکن ہم سے کہیں زیادہ فرمانبردار اور بہترین اخلاق والے تھے ہمیں اُنہی کے نقش پھر سے اپنانے ہوں گے تاکہ معاشرہ ایک متعدل راہ پر چل سکے۔
بقلم: امتل ھدٰی