پی ٹی آئی حکومت جب سے برسرِ اقتدار میں آئی ہے وہ ایک تنقیدی فیشن کے ٹڑینڈ سے دو چار ہے۔ یہ تنقید بعض اوقات ٹھیک اور تعمیری بھی ہوتی ہے لیکن زیادہ تر اس تنقید کے پھیچے بے جا بعض ، نا پسندیدگی یا سیاسی ایجینڈاز ہوتے ہیں۔ہمارے ہاں حکومت پر تنقید کرنے والے صحافیوں کی ایک بہت بڑی تعداد بھی پائی جاتی ہے جو یہ کہہ رہے ہیں کہ ڈاکٹر فردوس عاشق صاحبہ کو بولنے کی بالکل تمیز نہیں ہیں ایک سرکاری افسر سے اسطرح بات کر رہی ہیں جیسے وہ انکی نجی ملازمہ ہو۔ سوشل میڈیا پر ہر طرف واویلا مچا ہوا ہے کہ سرکاری افسر اپنی ساری عمر محنت میں لگاتے ہیں اسکے بعد مقابلے کا امتخان دیتے ہیں پھر اس منزل پر پہنچتے ہیں کہ افسر بن سکیں مگر بیچ بازار میں ہر کوئی سیاست دان انہیں ذلیل کر کے چلا جاتا ہے۔
یہ لوگ شائد اصل بات سے بے خبر ہیں کہ ایک پلان کردہ سرکاری دورہ پر جب غفلت برتی جائے تو اس طرح کے حالات تو پیدا ہوں گے۔ اس واقعہ کی اصل کہانی یہ تھی کہ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان رمضان بازار سیالکوٹ میں موجود سرکاری دورے پر تھیں، اور محترمہ صاحبہ AC گاڑی میں بیٹھی انکے آنے کا انتظار کر رہی تھیں کیونکہ روزہ اور گرمی کی وجہ سے وہ گاڑی سے باہر آنے سے قاصر تھیں حالانکہ اس وقت انکا کام بازار کے معاملات کی دیکھ بھال کرنا تھا، وائرل ویڈیو میں صرف ڈاکٹر صاحبہ کی جھاڑ تو موجود ہے مگر اس میں اے سی صاحبہ کے کام کی نااہلی موجود نہیں۔
اسی ویڈیو کے ایک مزید پہلو کو دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ ایک بوڑھی خاتون نے فردوس عاشق اعوان کے سامنے آکر واویلا شروع کیا کہ مجھےچینی بھی نہیں مل رہی اور پھل بھی ناقص مل رہے ہیں جبکہ انکا ریٹ بازار کے ریٹ سے زیادہ ہے۔ جس پر اے سی صاحبہ کو تلاش کیا گیا تو پتہ چلا کہ موصوفہ اپنی گاڑی میں ائیر کنڈیشن لگائے بیٹھی ہیں، جب ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے اے سی صاحبہ کو تلاش کر لیا تو پتہ چلا کے گرمی کی وجہ سے محترمہ معاملات کو ہینڈل نہیں کر پائیں اور اُسے ہیومن ایرر کا نام دے دیا۔
میڈیا سے گفتگو میں ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ سارے پنجاب کے رمضان بازار میں نے وزٹ کئے لیکن سب سے بُرا حال سیالکوٹ رمضان بازار کا ہے، اُنہوں نے اسی ضمن میں اے سی صاحبہ کو سخت الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے کہا کہ آپکی افسرِ شاہی کی کارستانیاں حکومت بُھگت رہی ہے۔ اُنہوں نے اے سی صاحبہ سے رمضان بازار کی تیاری کے متعلق مختلف سوالات کئے جن کے تسلی بخش جوابات نہ ہونے کی بناء پر ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے اسسٹنٹ کمشنر کی کلاس لے لی جس پر محترمہ غصے سے سیخ پہ ہو کر پنڈال سے باہر نکل گئیں۔
میرے خیال سے پاکستان میں بیوروکریسی کی وجہ سے بہت سے مسائل جوں کے توں ہیں اس ملک کی بیوروکریسی غریب کو دفتر کے باہر سارا دن بٹھا کر بھی داد رسی نہیں کرتی اور مارکیٹس میں جا کر غریبوں پر جرمانوں کی پرفارمنس دکھاتی ہے۔ اگر بیوروکریسی اپنی تنخواہ دینے والی عوام کی تذلیل سرِبازار کرتی ہے تو یہاں بھی کوئی انہونی نہیں ہو گئی۔
اے سی صاحبہ کی غفلت برتنے پر بھی عوام ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کو گالیاں دے رہی ہے کہ خاتون اے سی کا لحاظ کرنا چاہیے تھا، لہجہ تلخ تھا وغیرہ وغیرہ, لیکن شکر ہے کسی نے اس افسر شاہی کو بھی بتایا ہے کہ تم لوگ سی ایس ایس / پی ایم ایس کرکے پروٹوکول کی آڑ میں خود کو خلائی مخلوق سمجھنے لگ جاتے جو کہ تم نہیں ہو۔
افسوس اس بات کا ہے کہ ہماری عوام جو ہر وقت افسر شاہی کے رویے کو روتی پیٹتی ہے ابھی بھی منافق بنی بیٹھی ہے۔ اس عوام کو پتہ ہی نہیں کہ ان بیوروکریٹس کا کام کیا ہوتا ہے مگر پھر بھی عوام ان کے لئے سیسہ پلائی دیوار بنی کھڑی ہے۔ عوام کا سب سے بڑا ایشو مہنگائی اور اشیاء خوردونوش کی کوالٹی ہے جسے بیوروکریٹس کو احسن طریقے سے عوام تک پہنچانا ہوتا مگر حالات دُنیا کے سامنے عیاں ہیں کہ کیسے عوام گلی سڑی سبزیاں، پھل اور ملاوٹ زدہ دودھ خریدنے پر مجبور ہیں۔ جب ان آفیسرز نے اپنا کام نہیں کرنا اور اپنے بڑے بڑے آفسز میں اے سی میں بیٹھے رہنا ہے تو عوام مہنگائی اور ملاوٹ کا رونا روتی رہے اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ مگر اس نااہل بیوروکریسی میں مہنگائی سے لیکر ملاوٹ تک کا سارا ملبہ حکومتی وزراء پر آتا ہے عوام یہ نہیں دیکھتی کہ چیک اینڈ بیلنس کس نے کرنا ہوتا ہے یہ ہی وہ آفیسرز ہوتے ہیں جو تنخوائیں اور دیگر مراعات تو لیتے رہتے ہیں لیکن مہنگائی اور اشیاء کی کوالٹی کو چیک کرنا گوارا نہیں کرتے۔
ڈاکٹر فردوس عاشق نے آفیسر کو جھاڑ کیا پلا دی عوام اس محترمہ کی طرفداری فیشن کی تقلید میں کرنے میں نکل پڑی ہے جو کہ بے جا یا بغض میں چلایا جا رہا ہے کہ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے غلط کیا، یقین کریں یہی بیوروکریٹس اگر غفلت اور کرپشن چھوڑ دیں تو ہمارے ملک کے حالات بدل جائیں۔
ڈاکٹر فردوس کے لہجے اور الفاظ پر دُنیا تنقید کرتی ہے تو کرتی رہے اگر ان بیوروکریٹس کا چیک اینڈ بیلنس عوامی نمائندے نہیں کریں گے تو پھر کوئی بھی نہیں کرئے گا۔
بقلم: کاشف شہزاد