کورونا وائرس کے حوالے سے جو خدشات ظاہر کئے جا رہے تھے وہ سامنے آ رہے ہیں۔ حکومت نے عوام سے بار بار احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کو کہا لیکن جاری کردہ ایس او پیز پر لوگوں نے کان نہ دھرے۔ احکامات کیا تھےصرف یہی کہ دفاتر اور اداروں میں ملازمین ماسک اور سینی ٹائزر کے استعمال میں کوتاہی نہ برتیں۔ سماجی فاصلہ قائم رکھنے میں قباحت کا شکار نہ ہوں، رات کو ہوٹلوں پر فضول گفتگو اور سیاسی بحث و مباحثہ میں وقت ضائع نہ کریں وغیرہ، لیکن ہماری بے حس عوام جب تک آپس میں تو تو میں میں کی تکرار نہ کر لے تو انکی زندگی نہیں گزرتی۔ مُلک میں کورونا وائرس کی پہلی لہر کے دوران قوم کے سنجیدہ رویے سے کورونا پر قابو پانے میں تو خاطر خواہ مدد ملی تھی لیکن اب عوام کی جانب سے احتیاط ترک کر دینے سے کورونا وائرس میں تشویشناک حد تک مسلسل تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ عوام نے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا شروع کیا ہوا ہے۔ ہماری عوام کو معلوم بھی ہے کہ کورونا کی وباء نے ہمارے ہمسایہ مُلک ہندوستان میں جو تباہی پھیلائی ہے وہ نہ صرف خوفناک ہے بلکہ سبق آموز بھی ہے۔ بھارت کو اس وقت آکسیجن اور اسپتالوں میں بیڈز کی کمی کا سامنا ہے، لوگ سڑکوں پر پڑے ہیں، میدان شمشان گھاٹ بنے ہیں اور بیماروں کے ساتھ آئے ورثااسپتالوں کے کووڈ زون میں چلا چلا کر علاج کے لئے پکار رہے ہیں، وہاں ہر طرف قیامتِ صغریٰ کے مناظر ہیں۔ جبکہ پاکستان میں جو کورونا کے حالات ہیں وہ بھی دن بہ دن شدت اختیار کر رہے ہیں، بڑھتے ہوئے کورونا کیسز کے باوجود عوام کی جانب سے لاپرواہی اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ تشویشناک ہے۔ اگر عوام اسی طرح بغیر احتیاط کے بازاروں میں پھرتے رہے اور سوشل ڈسٹینسنگ کا خیال نہ رکھا گیا تو بھارت جیسے حالات ہونے میں خدانخواستہ زیادہ دیر نہیں لگے گی۔
ایک رپورٹ کے مطابق ہمارے مُلکِ پاکستان کی آبادی میں صرف پچاس سال سے زائد لوگوں کو اگر دیکھا جائے تو انکی تعدادتقریباٙٙ ڈیڑھ کروڑ سے زائد ہے ان تمام لوگوں کو ویکسین لگانے کے لئے اسکی تین کروڑ خوراکیں درکار ہوں گی اس طرح کورونا وائرس کے خلاف مجموعی قوتِ مدافعت پیدا کرنے کے لئے مُلکی آبادی کے ساٹھ فیصد سے زائد حصے کو ویکسین لگانا ضروری ہے یہ آبادی قریباٙٙ چودہ کروڑ بنتی ہے جس کے لئے ویکسین کی اٹھائیس کروڑ خوراکیں درکار ہیں۔
وزیرِ اعظم پاکستان کی ویکسین کے حوالے سے یہ بات بالکل قابلِ فہم ہے کہ ویکسین کو مسئلے کا فوری حل نہیں سمجھنا چاہیے کیونکہ مطلوبہ مقدار میں ویکسین مل بھی جائے تو بھی مُلک کی پوری آبادی تک اسے پہنچانے میں اسے کم از کم ایک سال صرف ہوگا جبکہ دُنیا بھر میں فی الوقت ویکسین کی قلت ہے اور وباء میں شدت کے ساتھ ساتھ ویکیسن کی دستیابی میں مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں۔ کورونا کی تمام ویکسین جو ابھی تک ایجاد ہوئی ہیں ان کے بارے سائنسدانوں کو علم ہے کہ یہ بہت ہی کم شواہد کی بنیاد پر بنائی گئی ہیں جو Hit and Trial کی بنیاد پر استعمال کی جا رہی ہیں کہ اگر ویکسین کام کر گئی تو ٹھیک ورنہ مزید تحقیق کر کے نئی بنائیں گے۔
عالمی ادارہ صحت نے کورونا کے بار بار ممکنہ حملوں کا خدشہ جو ظاہر کیا تھا کچھ ممالک میں اسے سنجیدگی سے دیکھا گیا اور اس پر غوروفکر بھی ہوا لیکن پاکستان میں اس خدشے کی آگاہی مہم کو مخالفین نے سیاسی سازش قرار دے دیا اور آج دُنیا کے دوسرے ممالک نہیں بلکہ ہمسایہ ملک بھارت میں ہی تباہی کے مناظر دیکھ کر ہمارے لوگوں کے چہرے سُکڑتے جا رہے ہیں، پریشانیاں نظر آنے لگ گئیں ہیں لیکن جہاں تک احتیاطی تدابیر کا تعلق ہے تو عوام اس طرف آنے سے نہ جانے کیوں گریز کر رہے ہیں۔
اکثر پڑھے لکھے لوگوں کا کہنا ہے کہ حکومت کی ویکسین کے معاملے میں سُست روی اور اسکی محدود پیمانے پر ترسیل سے مایوسی پھیل رہی ہے کیونکہ کورونا وائرس کی تیسری لہر انتہائی خطرناک رُخ اختیار کر چُکی ہے روزانہ بڑی تعداد میں لوگ اس وباء کا شکار ہو رہے ہیں، اسپتالوں میں بھی مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اگر یہی صورتحال جاری رہی تو اسے کنٹرول کرنا مشکل ہو جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک دن میں نصف درجن افراد کی اس وباء سے موت ہونا معمول بن گیا ہے، ہماری عوام اُس ویکسین کو لگوانے سے کترا رہی ہے جس میں زندگی بچانے کے لئے اُمید کی کرنیں پائی جاتی ہیں۔
اگر بات کی جائے امریکہ اور مغربی ممالک کی تو امریکہ میں کرونا کی ویکسین اب تمام بالغ افراد کیلئے دستیاب ہے۔ ویکسین کا آغاز ہیلتھ کئیر کے عملے اور ساٹھ سال سے زائد عمر کے افراد سے ہوا تھا۔ یہ ویکسین امریکی حکومت کی طرف سے عوام کو فری لگائی جارہی ہے اور اس کیلئے ہر پرائیویٹ ہسپتال کو ویکسین کی فراہمی اور سروس فیس کی ادائیگی امریکی حکومت کررہی ہے اور یہی سروس تقریباٙٙ پورے مغرب میں حکومتیں اپنی عوام تک پہنچانے میں مصروفِ عمل ہیں مگر مغربی ممالک اور ہمارے معیار میں زمین و آسمان کا فرق پایا جاتا ہے اور یہ بات اٹل ہے کہ مغربی ممالک کے عوام کے اخلاقی معیار تک پہنچنے کیلئے ابھی ہمیں پتہ نہیں کتنی صدیاں درکار ہوں گی کیونکہ ہماری سوچ ان کی سوچ سے بہت پیچھے ہے۔ ہم لوگوں کی سوچ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب ویکسین نہیں منگوائی تھی تو اپوزیشن ارکان اور عوام نے ملکر واویلا مچایا ہوا تھا کہ عوام مر رہے ہیں اور حکومت نے ابھی تک ایک ڈوز تک اپنی عوام کے لئے نہیں منگوائی اور جب حکومت نے کوشش کر کے ویکسین کی تیس لاکھ خوراکیں منگوا لیں تو اسکو لگوانے کے لئے کوئی رضا مند نہیں۔ اس ویکسین ڈوز کو ابھی تک صرف 13 لاکھ لوگوں نے ہی کوشش کر کے لگوایا ہے جبکہ بقیہ ڈوز ڈسپلے سنٹرز میں پڑی عوام کا انتظار کر رہی ہے۔ پچاس سال سے زائد عمر کے لوگ کوشش کر کے اس ویکسین کو لگوا رہے ہیں مگر جوان عمر کے لوگ اس کو لگوانے سے کترا رہے ہیں وہ ویکسین کی رجسٹریشن کروانا تو دور اسکے نام سے بھی بھاگ رہے ہیں ان کے اندر مختلف خدشات پیدا ہو رہے ہیں کہ یہ ویکسین انہیں نامرد بنا دے گی اور حکومت ویکسین کے ذریعے فیملی پلاننگ کروانے کا بہانہ ڈھونڈ رہی ہے وغیرہ وغیرہ۔ ایسی صورت حال میں اگر حکومت ویکسین کہیں سے مانگ کر پاکستان لے بھی آئے تو اسے لگوائے گا کون؟ اس لئے میرے خیال سے ہمارے عوام کو علاج کے لئے کورونا وائرس ویکسین کی نہیں بلکہ حکیمی نُسخوں کی ضرورت ہے جن کے استعمال سے یہ خوش رہتے ہیں اور راحت بھی محسوس کرتے ہیں۔
بقلم: کاشف شہزاد