یقیناٙٙ وزارتِ خزانہ اور ایف بی آر کا چولی دامن کا ساتھ ہے، اگر وزارتِ خزانہ میں کام نہیں ہو گا تو ایف بی آر میں بھی حالات مخدوش رہیں گے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے تین زونز کے 1150 کیسز میں اوسطاٙٙ ایک کیس سے ریکوری صرف چار ملین روپے ہے جو انتہائی تسلی بخش ہے۔ آف شور ٹیکس چوری کے معاملات پر پیش رفت سُسست روی کا شکار ہے جبکہ وزیرِ اعظم عمران خان اس بات ہر ہمیشہ زور دیتے آئے ہیں کہ جن لوگوں نے مُلک کا پیسہ لوٹا ہے یا غیر قانونی طور پر ملک سے پیسہ باہر لیکر گئے ہیں ان کے احتساب کا عمل تیز ہونا چاہیے کیونکہ لوٹی ہوئی دولت پاکستان آئے گی تو ہی ترقی ممکن ہو سکے گی۔ ایف بی آر ہیڈ کوارٹر نے 260 ارب روپے فراڈ ریکوری کے 1580 کیسز لاہور، کراچی اور اسلام آباد میں آٹو میٹک ایکسچینج آف انفارمیشن کے تین زونز کو منتقل کئے تھے۔ پچھلے ماہ کی رپورٹ کے مطابق 1150 کیسز کی ٹوٹل ریکوری 4.6 ارب روپے یا 30 ملین ڈالرز ہے۔ تحریک انصاف نے لوٹے گئے بلینز آف ڈالر ریکور کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن موجودہ صورتحال یہ ہے کہ ڈائریکٹر جنرل آف انٹرنیشنل ٹیکسز ایف بی آر کا سب سے زیادہ نظر انداز کیا جانے والا شعبہ ہے۔ ریکارڈ کے مطابق تقریباٙٙ پچھلے ایک سال سے اس شعبے کا کوئی ڈی جی تعنیات نہیں کیا گیا جبکہ سینئر حکومتی وزراء آج بھی یہ اعلان کرتے دیکھائی دیتے ہیں وزیرِ اعظم صاحب کے لئے سب سے پہلی ترجیح لوٹی ہوئی دولت واپس لانا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس طرح کی غیر سنجیدگی سے دولت واپس لائی جا سکتی ہے؟ یہ باتیں زیرِ گردش ہیں کہ مبینہ طور پر بلاوجہ کیسز کو طول دیا جا رہا ہے اور ڈیپارٹمنٹ افسران پر رشوت لیکر ملی بھگت کرنے کے الزامات عائد کئے جا رہے ہیں۔
اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ ایف ٹی او آفس نے معاملے کی تحقیقات کے لئے سوموٹو ایکشن لیا ہے تاکہ معاملے کی جڑ تک پہنچا جا سکے۔ واضح رہے کہ ایف ٹی او ایک سرکاری ادارہ ہے جسکا کام ایف بی آر افسران کے خلاف شکایات سُننا، جانچ پڑتال کرنا اور سزا کا تعین کرنا ہوتا ہے۔ بد قسمتی سے ملک کے کچھ دوسرے اداروں کی طرح اس سے بھی زیادہ اُمیدیں وابستہ نہیں ہیں لیکن کاغذی کاروائی کی حد تک کام ہو رہا ہے۔ چند روز قبل ایف ٹی او نے ایف بی آر کو نوٹس بھیجا جس میں پوچھا گیا ہے کہ تینوں زونز کے کن افسران کے خلاف ایکشن لیا جانا چاہیے؟ معاملے کو شفاف رکھنے کے لئے ایف ٹی او اور ایف بی آر سے ایک ایک آفیسر لیا گیا ہے جو سارے معاملے کی تحقیقات کرِے گا۔
اس وقت ایف بی آر کی کار کردگی کی صورتِ حال یہ ہے کہ 260 ارب روپے کے کیسز میں سے صرف 53 ارب قابلِ ٹیکس رقم نکالی گئی ہے جس میں سے محض 14 ارب روپے کی ٹیکس ریکوری کی نشاندہی کی گئی ہے اور اس میں سے بھی صرف 4.6 ارب روپے ریکور کئے گئے ہیں 430 کیسز اب بھی التوا کا شکار ہیں جن پر تاحال فیصلہ نہ ہونے کی کوئی مضبوط دلیل موجود نہیں ہے۔ لاہور، کراچی اور اسلام آباد زونز کی اگر بات کی جائے تو کراچی کی کارکردگی سب سے کمزور ہے۔ جتنی ویلیو کے کیسز کراچی کو بھیجے گئے تھے ان میں سے صرف 15 فیصد پر کام ہوا ہے۔ لاہور میں یہ شرح 26 فیصد جبکہ اسلام آبد میں 29 فیصد ہے۔ ایف بی آر نے 152 ارب روپے کے 900 کیسز کراچی کو بھجوائے تھے جن میں سے صرف 23 ارب روپے کے کیسز قابلِ ٹیکس تھے، 900 میں سے 624 کیسز پر 5.1 ارب روپے کی ٹیکس ڈیمانڈ بنائی گئی اور 3.1 ارب روپے کی ریکوری کی گئی ان میں 275 کیسز اب بھی التواء کا شکار ہیں۔ لاہور زون کو 368 کیسز بھجوائے گئے جن کی ویلیو 49 ارب روپے تھی اس میں سے 13 ارب روپے کی قابل ٹیکس رقم نکال لی گئی اور 4 ارب روپے کی ٹیکس ڈیمانڈ بنائی گئی جس میں سے 1.1 ارب روپے ریکور کئے گئےجبکہ 82 کیسز پر فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔ اسلام آباد کو 89 ارب روپے کے 312 کیسز بھجوائے گئےجس میں سے قابلِ ٹیکس رقم 17 ارب روپے تھی۔ 5.1 ارب روپے کی ٹیکس ڈیمانڈ بنائی گئی اور 305 ملین روہے ریکور کئے گئےجبکہ 74 کیسز اب بھی التواء کا شکار ہیں۔ ایف بی آر کے مطابق قابلِ ٹیکس رقم اور بھجوائے گئے کیسز میں زیادہ فرق کی وجہ سے بیرونِ ملک میں ایسے پاکستانی بھی مقیم ہیں جن پر پاکستان میں ٹیکس لاگو نہیں ہوتا۔ چونکہ معاملے پر تحقیقات ہو رہی ہیں کسی دعوے کو من و عن تسلیم نہیں کیا سکتا۔ یہ ایف بی آر کے ایک چھوٹے سے شعبے کی کارکردگی ہے اگر مکمل پرفامنس کا جائزہ لیا جائے تو مایوسی مزید بڑھ جائے گی۔ اس کے علاوہ اگر تحقیقی جائزہ دیگرمحکموں تک بڑھا لیا جائے تو تسلی بخش رپورٹ آنے کے امکانات بالکل کم ہو جائیں گے۔
اس وقت جو مسئلہ ہر شعبے میں نمایاں ہو کر سامنے آ رہا یے وہ پالیسی میں عدم تسلسل اور عدم استحکام کا ہے۔ ایک شخص کو ایک سیٹ پر تعینات کیا جاتا ہے تو چند دنوں بعد یا چند ہفتوں بعد ہی اسے وہاں سے ہٹا دیا جاتا ہے۔ اربابِ اختیار کو یہ سمجھنا چاہیے کہ مُلک میں ترقی کی سمت اس وقت تک درست نہیں ہو سکتی جب تک فیصلوں میں پختگی اور مستقل مزاجی کو یقینی نہیں بنایا جاتا۔ اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ افسران اور وزراء کی تبدیلی میں مستقل مزاجی دیکھائی جائے اور اس پر فخر کیا جائے۔ جب کسی فرد کو کسی عہدے پر تعینات کر کیا جائے تو اس کے بعد اسے فری ہینڈ اور مناسب وقت دیا جائے تاکہ وہ اپنی پالیسیوں کا نفاذ یقینی بنا کر ان کے نتائج حاصل کر سکے۔ ہر چند ہفتوں بعد نیا بندہ تعینات کر دینا ایسا رویہ شائد کھیل کے میدان میں تو کامیاب ہو سکتا ہے لیکن ملک چلانے کے لئے بالکل بھی معاون ثابت نہیں ہو سکتا کیونکہ کھیل اور مُلک چلانے میں فرق ہوتا ہے۔
بقلم: کاشف شہزاد