فلسطین جل رہا ہے اور دُنیا خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔ گزشتہ کئی روز سے اسرائیلی فوج کی جانب سے مقبوضہ بیت المقدس میں نمازیوں پر مسلسل کریک ڈاوّن کیا جا رہا ہے۔ صیہونیوں کی بمباری سے ایک طرف مسجدِ اقصیٰ کے احاطے میں آگ بھڑک اُٹھی ہے اور دوسری طرف یہودی قوم اس آگ کا جشن منا رہی ہے جسے پوری دُنیا دیکھ رہی ہے، وہاں صورتِ حال انتہائی کشیدہ بتائی جا رہی ہے۔ فلسطین کے اعلیٰ حکام کے مطابق اسرائیلی فضائی حملوں میں 36 بچوں سمیت ایک سو سینتیس افراد شہید جبکہ ایک ہزار سے زائد زخمی ہوئے ہیں، اس کے ساتھ سینکڑوں فلسطینیوں کو صیہونیوں نے گرفتار بھی کیا ہے جن میں خواتین بھی شامل ہیں۔ اسکے بعد غزہ سے حماس نے اسرائیلی علاقے میں متعدد راکٹ داغے ہیں جس کے باعث پیر کی شب اسرائیل کی جانب سے غزہ کی پٹی میں فضائی حملے کئے گئے۔ اسرائیل اور حماس کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف حملوں کے بعد دُنیا کے مختلف ممالک کی جانب سے فریقین سے پُر امن رہنے کی اپیلیں کی گئی ہیں۔ امریکہ، یورپی یونین اور برطانیہ نے فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ جتنی جلدی ممکن ہو سکے کشیدگی کو کم کریں مگر اس میں صرف شدت پیدا ہو رہی ہے۔
ہر سال رمضان المبارک میں مقبوضہ فلسطین میں رہائیش پزیر فلسطینیوں کی ایک بڑی تعداد بیت المقدس میں عبادت کے لئے اکٹھی ہوتی ہے مکہ میں خانہ کعبہ اور مدینہ میں روضہ رسولؐ کے بعد مسجدِ اقصیٰ مسلمانوں کے لئے تیسرا بڑا مقدس مقام ہے۔ ماہ رمضان کے آخری جمعہ جمعتہ الوداع اور مقدس ترین رات لیلتہ القدر کے موقع پر مسلمانوں کی کثیر تعداد نمازِ تراویح میں اللّٰہ کے حضور سر بسجود گڑ گڑا کر آزادی کی دعائیں مانگ رہی تھی کہ اسرائیلی پولیس نے مسجدِ اقصیٰ پر دھاوا بول دیا اور اپنے ناپاک پاوّں سے تقدس کو پامال کیا، ساتھ ہی نہتے مسلمان مرد، عورتوں، بچوں اور بوڑھوں پر آنسو گیس، ربڑ کی گولیاں اور لاٹھی چارج کا بے دریغ استعمال بھی کیا۔ اسرائیلیوں نے مسجد کے احاطے میں لگی آگ کے شعلوں کو دیکھ کر دیوارِ گریہ پر خوب جشن منایا بالکل ایسے ہی جیسے ہولو کاسٹ پر جرمنی نازیوں نے جشن منایا تھا۔ اسرائیل فضائیہ نے بھی بے یارومددگار مسلمانوں پر خوب فضائی حملے کیے اور لاچار مسلمانوں کی کئی رہائشی عمارتوں کو زمین بوس کر دیا۔
دُنیا کے تقریباٙٙ تمام مذاہب مذہبی آزادی کی بات کرتے ہیں لیکن اسرائیل خطہ ارض پر وہ ناسور ہے جس نے مسلمانوں کے مقدس مہینے میں نہتے بے ضرر عبادت میں مشغول مسلمانوں پر ظلم و جور کا بازار گرم کر کے منگولوں اور تارتاریوں کی روح کو بھی شرما دیا۔ مسجدِ اقصیٰ کی دیواریں اور صحن خون سے لت پت ہیں جبکہ آنکھیں بے بسی کے آنسو لئے ہوئے ہیں، مسلمانوں کا خون علمی ٹھیکیداروں کی نظر میں اتنا ارزاں ہو گیا ہے کہ وہ بے حسی کی چادر اُڑھے خوابِ خرگوش کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ مگر ہم ان سے کیا گلہ کریں جبکہ ہمارے اپنوں کا خون ہی سفید ہو گیا ہے 57 اسلامی مُلک اپنے اپنے مفادات کی خاطر چُپ سادھے ہوئے ہیں۔ ماں اور بہنوں کی لُٹتی ردایں دیکھ کر بھی ہمارے خون میں اُبال نہیں آ رہا، ، انکی ہتھکڑیوں میں ہنستی ہوئی تصویریں عالم اسلام پر زناٹے دار تھپڑوں سے کم نہیں۔ دُنیا میں دھرم سے زیادہ انسانیت کا رشتہ مقدس سمجھا جاتا ہے مگر یہاں تو گنگا ہی اُلٹی بہہ رہی ہے یہاں انسانیت کی سسکیاں اور آہیں بھی کسی کو سُنائی نہیں دے رہیں۔ آج فلسطین کا مسلمان تڑپ رہا ہے بلک رہا ہے۔ یہ معصوم عرب بھول گئے ہیں کہ مسلمان ممالک کے حکمران تو اس وقت بھی ضمیر کو تھپکی دیکر سُلائے ہوئے تھے جب کشمیر، بوسنیا، روہینگیا، عراق، شام، افغانستان کے بے یارومددگار مسلمان ان سے مسیحائی کی اُمید لگائے تھے۔
20
اگست 2004 کو اسرائیل کی سابقہ وزیرِ اعظم گولڈ
امیر کا ایک بیان منظرِ عام پر آیا کہ جس میں موصوفہ نے کہا کہ جب پہلی بار اسرائیل نے مسجدِ اقصیٰ کو آگ لگائی تو وہ دن میرے لئے بُرا بھی تھا اور خوشگوار بھی۔ بُرا اس لئے کہ میں ساری رات اس خوف سے سو نہ سکی کہ صبح عالمِ اسلام اسرائیل کو ختم کر دے گا اور خوشگوار اس لئے کہ صبح عالمِ اسلام کا ردِ عمل دیکھ کر احساس ہوا کہ اب اسرائیل حدودِ عرب میں محفوظ ہے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ آج غیر مسلم مسلمانوں کی غیرتِ ایمانی ختم ہونے پر شہنایاں بجا رہے ہیں۔ ڈاکٹر اصرار احمد نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ اسرائیل ہیکلِ سُلیمانی تعمیر کرنے کے لئے مکمل طور پر تیار ہے چاہے اس کی اسے کوئی بھی قیمت چُکانی پڑے کیونکہ ہیکل سُلیمانی اسرائیل کے لئے وہی اہمیت رکھتا ہے جو کعبہ عالمِ اسلام کے لئے، اس لئے وہ فلسطین کے مسلمانوں پر ظلم و جبر کرنے سےکسی طرح بھی باز نہیں آئے گا۔
یاد رکھیں مسجدِ اقصیٰ دینے کا مطلب اسلامی جمعیت کا جنازہ نکالنے کے مترادف ہے اگر سسکیاں لیتی اسلامی جمعیت کو حیاتِ جاویدانی دینی ہے تو پھر پورے عالمِ اسلام کو صیہونیت کی ننگی تلوار کی تیز دھار پر ننگے پاوّں چلنا ہوگا کیونکہ قبلہِ اوّل سے بیوفائی کوئی سستا سودا نہیں ہے اس کے لئے سب کو یک زباں ہوکر عالمی امن کے ٹھیکیداروں کے ضمیر کو جھنجھوڑنا ہوگا۔ ظلم سے ظلم کو روکنا دل میں بُرا جاننے سے بہت بہتر ہے۔ آج ڈیڑھ ارب کے قریب مسلمان جو 57 اسلامی ممالک میں آباد ہیں ان میں کچھ تیل کی دولت سے مالا مال ہیں، کچھ کی معیشت کافی بہتر ہے اور کچھ ایٹمی ہتھیاروں سے بھی لیس ہیں پھر بھی ابابیلوں کی ہی دعا پر کنارا کریں تو یقیناٙٙ یہ ابابیل بھی پلٹ کر مسلمانوں پر ہی کنکر ماریں گے۔ ہم دعا گو ہیں کہ اللّٰہ ربُ العزت مسجدِ اقصیٰ اور اُمتِ مسلماں کی حفاظت فرمائے۔ ہم فلسطین کے مسلمانوں کی زبان اور قلم سے حمایت جاری رکھیں گے اور یہ بھی اُمید ہے کہ وہ بھی جلد آزادی کا سورج طلوع ہوتا ہوا دیکھیں گے۔
بقلم: کاشف شہزاد