زندگی میں بے ترتیب کچھ بھی نہیں ہوتا اور اتفاق سے ملاقات ہمیشہ متاثر کُن رہتی ہے انسان کے ساتھ جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ حقیقت میں الٰہی کی طرف سے ہم آہنگی ہوتی ہے، بس ایسی ہی ایک اتفاقی ملاقات روزی گیبرئیل نے بلوچستان کی ایک خاتون سے کی۔
یہ ملاقات خدائے اعلیٰ کی طرف سے پیوند تھی جو روزی کو اس عورت کے دروازے پر لے گئی۔ روزی ایک کینڈین خاتون ہے جس نے موٹر سائیکل پر پاکستان کا دورہ کرنے کی ٹھانی اور پاکستان کے مشکل ترین حالات میں اکیلے سفر کر کے بتایا کہ پاکستان خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ مہمان نواز، جاندار اور شاندار مُلک ہے جہاں کسی کو کوئی خطرہ نہیں۔ اس کینڈین خاتون نے اپنے سفر کا آغاز بلوچستان سے کیا جہاں کی خوبصورت یادیں لکھی جا رہی ہیں۔
ہمارے معاشرے کی ایک خوبصورتی ہے کہ جب کوئی غیر ملکی دیکھتے ہیں تو جمِ غفیر کی طرح اسکے استقبال کی طرف لپکتے ہیں مگر چونکہ روزی بلوچستان میں تھی اور وہاں دور دور آبادی ہونے کی وجہ سے وہ جمِ غفیر نہ بن سکا جو بننا چاہیے تھا مگر پھر بھی اسکا استقبال کیا گیا اور اس کا استقبال مسکراتے بچوں کے ایک گروپ نے کیا جو روزی گیبرئیل کی موٹر سائیکل کی طرف بھاگتے ہوئے اسکے پاس آئے، کچھ ہی لمحہ میں ایک نہایت ہی خوبصورت اور دیدہ وری سے تعمیر کردہ جھونپڑی سے مُسکراتی ہوئی نکلی، جس نے بلوچستان کا مان قائم رکھا اور گلے لگا کر روزی کا استقبال کیا۔ خوش قسمتی سے وہ عورت اردو بول سکتی تھی اور روزی بآسانی اُردو سمجھ سکتی تھی۔
بلوچستان کے وسط میں واقع اس کا چھوٹا سا گاؤں جہاں اس نے گرمجوشی سے روزی کو اپنے گھر میں خوش آمدید کہا اُسے ایسا ہی محسوس ہوا جیسے وہ اُسکا اپنا خاندان ہے۔ روزی کے مطابق اس عورت کے بارے میں کچھ مختلف تھا۔ وہ نہ صرف درحقیقت اُس سے ایک بہن کی طرح ہی مشابہت رکھتی تھی، بلکہ ایسا ہی تھا جیسے وہ کسی وقت میں بہنوں کی گمشدگی سے محروم ہوگئیں تھیں۔ وہ عورت نہایت ہی خوبصورتی سے تعمیر شدہ پہاڑوں کے درمیان واقع ایک چھوٹی سی جھونپڑی میں اپنی دو خوبصورت پریوں کے ساتھ رہ رہی تھی۔اس عورت کا نام فرزانہ تھا۔
خوبصورت ملاقات اور استقبال کے بعد فرزانہ نے روزی سے اصرار کیا کہ وہ اس کے گھر چائے اور کھانا کھانے کے لئے تشریف لائے۔ روزی نے اس اصرار کو خوش اسلوبی سے قبول کر لیا۔ کھانے کی مہمان نوازی کے درمیان روزی گیبرئیل کی فرزانہ کے ساتھ دوستی اسقدر گہری ہوگئی کہ وقت کیسے گزرا اُنہیں اسکا چنداں احساس بھی نہ ہوا۔ اب فرزانہ یہ چاہ رہی تھی کہ روزی اس کے گھر ایک دو رات رُک جائے لیکن روزی کو گوادر جانا تھا جس وجہ وہ اسکے پاس اُس دن نہ رُک سکی لیکن روزی نے اس سے وعدہ کیا کہ گوادر سے واپسی پر وہ اسکے گھر رہے گی اور پھر اُس نے اپنا وعدہ وفا کیا اور دو ہفتوں کے بعد جب روزی فرزانہ کے گھر آئی تو وہ بہت خوش ہوئی۔ فرزانہ ایک باصلاحیت اور کمال کی اسٹیچر ہے، وہ اپنے کُنبے کی کفالت کے لئے شاندار روایتی بلوچی لباس تیار کرتی ہے۔ فرزانہ اور اس کے کنبہ کے ساتھ چند لمحے گزارنا روزی کی زندگی کا ایک حیرت انگیز تجربہ تھا جس نے اُسکے دل کو چھو لیا اور اُسکی روح میں ایک ایسی تصویر بنائی جو وہ کبھی نہیں بھول پائے گی، کیونکہ روزی نے بھانپ لیا تھا کہ بلوچستان کی صورتحال انتہائی سخت ہے اور فرزانہ اسی بلوچستان میں اپنے چھوٹے سے کنبہ کی کفالت کے لئے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔
پہلی دفعہ اسکے گھر سے جانے سے پہلے روزی نے اسے کچھ رقم دی اور اس کی مدد کرنے کا وعدہ کیا، جسے دیکھتے ہی فرزانہ فوراٙٙ آنسوں میں پھوٹ پڑی اور یہ کہتے ہوئے روزی کو گلے لگا لیا کہ تم میری فرشتہ صفت بہن ہو۔ روزی بلوچستان میں مارچ کے مہینے میں گئی تھی اور جہاں وہ رہ رہی تھی وہاں سوائے جُھونپڑی کے نہ بجلی تھی اور نہ ہی سایہ، جب موسم گرما اپنے عروج پر ہوتا ہے تو اس وقت وہاں کا درجہ حرارت 50 سینٹی گریڈ ہونا معمول کی بات ہے اور اسی گرمی میں فرزانہ اور اسکا کُنبہ سالوں سے رہ رہے تھے۔
روزی نے فرزانہ سے پوچھا کہ وہ اس کی کیا مدد کرسکتی ہے؟ جس پر ہچکچاہٹ کے ساتھ فرزانہ نے اس سے کہا، کہ وہ بجلی اور پنکھے کو استعمال کرنا چاہتی ہے اور اگلے ہی دن روزی نے فنڈ ریزنگ سے انکے لئے ایک سولر پینل خرید لیا جسے دیکھ اُن کے گھر عید کا سماں بن گیا۔
روزی گیبرئیل بلوچستان کے طرزِ زندگی کو اُجاگر کرنے اور پاکستان کا بہترین امیج دُنیا کو دکھانے کے لئے تمہارا شکریہ۔ تم نے یقیناٙٙ وہ کام کیا جو ہمارے ایم این اے، ایم پی اے، سردار اور سرکاری عہدیداران نہ کر سکے۔ تم نے نہ صرف اس عورت کی مدد کی بلکہ اس معاشرے کو بھی شرم دلانے کی کوشش کی کہ اگر ہر شخص اپنی تھوڑی سی محنت سے کسی ایک گھرانے کی مدد کرئے تو اسکے گھر بھی عید کا سماں بن سکتا ہے۔
بقلم: کاشف شہزاد