کچھ عرصہ پہلے چند شر پسندوں نے ایک نعرہ لگایا، یہ جو دہشت گردی ہے اسکے ہیچھے وردی ہے، پھر انہی کے چیلے چانٹوں نے اس سے ملتے جلتے نعرے لگانے شروع کیے, ایسے لوگوں کو چند نام نہاد اینکروں اور صحافیوں نے جھوٹے پروپیگنڈہ اور الزام تراشیوں کے ذریعے تقویت دی۔ حال ہی میں انہوں نے ایک اور بھونڈی چال چلی جسکا پول دو دن بعد ہی کُھل گیا۔ ایسے ضمیر فروش اپنی اوچھی حرکتوں سے باز نہیں آتے کیونکہ ایک جانب تو انکو ہمارے دشمنوں کی طرف سے ہڈیاں ملتی رہتی ہیں اور دوسری جانب ملک کے اندر ہماری آستینوں کے سانپ انکو حوصلہ دیتے رہتے ہیں جسکی ایک جھلک ہمیں کچھ دن قبل نظر آئی جب اس ڈرامے کے ایک کردار کے گھر جھمگھٹا لگ گیا۔دشمن اور اسکے چیلوں کے یہ حملے کافی عرصے سے جاری ہیں اور چلتے رہیں گے لیکن آفرین ہے ہمارے وردی والوں اور ہمارے عوام کو کہ جوان کی ہرزہ سرائی پر کان نہیں دھرتے اور انکے حملے خودبخود پسپا ہو جاتے ہیں۔ ہمارے عوام کے دلوں میں افواجِ پاکستان کے لئے جو عقیدت و محبت کے سمندر موجزن ہیں اس کے پیچھے جانبازوں کی لازوال قربانیاں اور خدمات ہیں۔ اور اسی عقیدت کی وجہ سے عوام دشمن ایجنٹوں کی ہرزہ سرائی کا کوئی اثر نہیں لیتے۔ قوم کا ہر فرد اس حقیقت سے واقف ہے کہ قیامِ پاکستام سے آج تک ان وردی والوں نے ملک کے دفاع اور استحکام کے لئے لاتعداد جانیں قربان کیں۔ ان شہدا میں سے گیارہ شیہد وہ ہیں جنکی جرات و شجاعت اور قربانی کے اعتراف میں قوم نے انہیں سب سے بڑے عسکری اعزاز نشانِ حیدر سے نوازا۔ لیکن انکے علاوہ ایسے لاتعداد جانباز ہیں کہ جن کی شجاعت اور قربانیوں کی داستانوں سے تاریخ کے اوراق پلٹیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ایسے جانباز بھی ان گنت ہیں جنکی بیش قیمت قربانیاں اور خدمات ملک کے استحکام اور تحفظ کو تقویت دیتی رہی ہیں۔
گزشتہ چند سالوں سے ہمارے وردی والوں کو مضحکہ خیز القابات سے نوازنے اور انکے کردار پر کیچڑ اچھالنے کی مہم زور پکڑتی جا رہی ہے۔ چونکہ ہماری جوان نسل کی ایک بہت بڑی تعداد اپنے مجاہدوں کے اصل کارناموں سے بے خبر ہے اس لئے اندرونِ ملک بیٹھے چند میر جعفر اپنے آقاوّں کی خوشنودی کی خاطر جھوٹی اور من گھرت باتوں سے ہماری جوان نسل کی سوچ پراگندہ کر رہے ہیں۔ مستقبل کے ان معماروں کے لئے یہ جاننا بہت ضروری ہےکہ ہمارے ملک کی تاریخ ہمارے وردی والوں کے لازوال کارناموں سے بھری ہوئی ہے ہمارا ایک ایک شہید اور غازی اپنی ذات میں وطن سے محبت خلوص اور قربانیوں کی طویل داستانیں سمیٹے ہوئے ہیں۔ عساکر پاکستان کے دو شعبے تو ایسے ہیں کہ جنکا ایک ایک فرد مجسم قربانی ہے۔ ایس ایس جی اور انٹیلی جنس کے شعبوں سے منسلک لوگوں کی قربانیاں ماضی میں بھی اپنا رنگ دکھاتی رہی ہیں اور آج بھی دکھا رہی ہیں۔ تاہم انکی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کے کارنامے ملکی سیکیورٹی کی بناء پر طشت ازبام نہیں ہوتے۔ یہ وہ شہباز ہیں جنکے لئے زمانہ امن میں بھی جنگ کا محاذ گرم رہتا ہے۔ آج پھر سے ہمارا دشمن وہی پُرانی تکنیک اپنائے ہوئے ہے جسکا انکشاف روسی خفیہ ایجنسی کے سابق آفسر یوری مینوف نے کیا تھا کہ 1971 میں سابقہ مشرقی پاکستان میں کوئی آزادی کی جنگ نہیں تھی یہ صرف ایک سائیکالوجیکل آپریشن تھا ہم نے اچھا لکھنے اور اچھا بولنے والوں کو بھرتی کیا اور بڑے پیمانے پر لوگوں کی برین واشنگ کر کے بغاوت پر آمادہ کیا۔ اپنے ارگرد نظر ڈالیں تو آج بھی یہی حربہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لئے اس قسم کے اچھا بولنے لکھنے والے آج بھی زہر اُگل رہے ہیں یہ وہی نمک حرام ہیں جو مُلک میں رہتے ہوئے دشمنوں سے مراعات اور اعزازات وصول کرتے ہیں۔ یہی وہ آستین کے سانپ ہیں جو وردی والوں کے خلاف نعرے لگانے والوں کو تقویت دیتے ہیں۔ انکی فطری بزدلی انہیں سامنے آ کر مقابلہ کرنے کی اجازت نہیں دیتی کیونکہ دشمن کے یہ چمچے اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمارے یہ ہتھیار کبھی زنگ آلود نہیں ہو سکتے۔ ہمارے جوان اپنا سینہ دشمن کی گولیوں سے سجانے کے لئے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ ان ضمیر فروش صحافیوں کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ جب تک ہمارے شہیدوں کے والدین فخر سے اپنے شہید بچوں کی قومی پرچم میں لپٹی وردیاں وصول کرتے رہیں گے اس وقت تک ہمارے ہتھیار زنگ آلود نہیں ہوں گے۔ ہماری پاک فوج دلیروں کی فوج ہے اور دلیر لوگ پیٹھ پیچھے وار نہیں کرتے بلکہ سامنے کھڑے ہو کر للکار کر مقابلہ کرتے ہیں۔ یہ جو جھوٹے الزامات لگا کر وردی والوں کو بدنام کیا جا رہا یہ جھوٹ کے پلندے کے علاوہ کچھ نہیں۔ پاکستان کی جانب سے ان معاملات میں خاموشی سپاہ سالاروں کی دانشمندی کا ثبوت ہے۔ الفاظ کی جنگ لڑنا فوج کا کام نہیں بلکہ یہ تو قانونی محاذ پر لڑی جانے والی لڑائی ہے۔ حقیقت تو یہ یے کہ جس میڈیا میں آئی ایس آئی اور دیگر طاقتور اداروں کے بارے بلاجھجک اور بغیر تصدیق کے اول فول بکنا آسان اور ملک ریاض یا بحریہ ٹاؤن کے بارے کوئی مصدقہ سچ بولنا بھی مشکل بلکہ ناممکن ہو اس ملک میں میڈیا کی آزادی اظہار رائے کا مسئلہ نہیں ہے. اصل معاملہ میڈیا کے بکاؤ ہونے کا ہے۔
بقلم: کاشف شہزاد