عمران خان کی آمد سے سیاسی تبدیلیوں کے امکانات کے باعث پی ٹی آئی سے عوام نے بڑی توقعات وابستہ کر لیں اور یہ سب فطری بھی تھا کیونکہ 72 سال کے سیاسی سفر میں عوام کے حصے میں صرف غربت، بیروزگاری، مہنگائی اور ایک بے منزل زندگی اور دھندلے مستقبل کے ادھورے خواب ہی آئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن اور دیگر جماعتوں نے سیاسی طور پر ملکی معیشت، تعلیم، صحت، تعمیرات اور اقتصادی و کاروباری شعبے میں اقدامات کئے، ملک میں ترقی اور معاشی صورتحال کو بہتر سمت دینے کے کوشش کی گئی لیکن عوام بے چاروں کی حالت ایسی رہی کی وہ مسلسل اپنے حکمرانوں کی طرف آس بھری نظروں سے دیکھتے رہے کہ کسی طرح اس بجٹ میں انکی داد رسی کی جائے گی۔
آج کل بھی روز مرہ اشیائے صرف کی قیمتیں دن بہ دن آسمان سے باتیں کرتی نظر آ رہی ہیں اور عوام کی قوتِ خرید سے مسلسل باہر ہو رہی ہیں۔ حکومتی دعوے اپنی جگہ کہ حکومت میکرو اکنامک اصلاحات میں مصروفِ عمل ہے اور ہر صورت تجارتی خسارہ کم کرنے کی کوشش میں کامیابی کا دعویٰ کر رہی ہے۔ یہ دعویٰ بہت عرصے بعد کسی حکومت نے کیا اور حکومتی دعوے کے مطابق اب تجارتی خسارہ 20 ارب ڈالر سے 970 ملین ڈالر پلس ہو چکا ہے جسکا مطلب یہ ہے کہ بیرونِ ملک سے برآمد کی جانے والی بہت سی ایسی مصنوعات کو یا ترک کر دیا گیا یا اس پر ڈیوٹی اتنی بڑھا دی گئی ہے کہ درآمد کنندگان کے لئے اسے درآمد کرنا ممکن نہیں رہا۔ تیسری صورت یہ کہ پاکستانی مصنوعات کی برآمد میں قابلِ قدر اضافہ ہوا ہے جس نے اس تجارتی خسارے کو منفی سے مثبت میں تبدیل کر دیا ہے۔ فی زمانہ معاشی ترقی کا ایک اور پیمانہ سٹاک مارکیٹ میں ہونے والی سرمایہ کاری اور اُتار چڑھاوّ سے مشروط ہے اور موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے سٹاک مارکیٹ میں اتنی تیزی نہیں دیکھی گئی جتنی اس سال دیکھنے میں آئی۔
ہمارے ملک کی معاشی ترقی صنعتی پیداوار سے بھی مشروط ہے اور صنعتی پیداوار کے لئےبلا تعطل توانائی کی فراہمی لازمی جزو ہے, دوسری جانب معاشی سر گرمیوں کو بحال رکھنا بھی انتہائی ضروری ہے۔ اس وقت ساری دُنیا میں معاشی سرگرمیاں کورونا وائرس کی وجہ سے تنزلی کا شکار ہیں مگر پاکستان میں الحمداللّٰہ معاشی سرگرمیاں دشواریوں کے باوجود بڑھی ہیں۔ دورِ جدید میں انرجی کا حصول آسائش کی بجائے بنیادی انسانی ضرورت تصور ہوتا ہے اور اسکے بغیر آج زندگی نا مکمل ہے یہ ممکن نہیں کہ معاشرہ ترقی بھی کرنا چاہے لیکن اس کے پاس بنیادی جزو ہی نہ ہو۔ چین کی طرف دیکھیں تو یہ فرق واضح نظر آتا ہے اور اسکی دیو قامت صنعت کا حجم اسی وجہ سے بڑھا ہے کہ چین میں توانائی نا صرف بلا تعطل بلکہ تسلسل کے ساتھ ایک فریکوئنسی پر فراہم ہو رہی ہے۔ مسلم لیگ ن اپنے دورِ حکومت میں مبینہ طور پر یہ دعویٰ کرتی رہی کہ اس نے توانائی کی 11 ہزار میگا واٹ پیداوار بڑھائی ہے لیکن آج ن لیگ کے عہدیدار اعتراف کرتے نظر آتے ہیں کہ گیارہ ہزار میگا واٹ کے منصوبے تو ضرور بنے لیکن یہ انرجی قومی دھارے میں اس لئے شامل نہ ہو سکی کہ ٹرانسمیشن لائن یہ بوجھ اُٹھانے کی سکت ہی نہیں رکھتی تھی۔ شعبہ صنعت کو چلانے کے لئے ضروری ہے کہ صنعت کاروں کو سستی بجلی مہیا کی جائے تا کہ صنعت کا پہیہ تسلسل کے ساتھ چلتا رہے اور ملک میں روزگار کی شرح بڑھتی جائے۔
پی ٹی آئی حکومت کے اس پیش کردہ چوتھے بجٹ کے لاگو ہوتے ہی اسکی حکومت کا چوتھا سال بھی شروع ہو جائے گا عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ کسی بھی حکمران پارٹی کے چوتھے سال کا بجٹ انتخابی بجٹ ہوتا ہے جس میں وہ زیادہ سے زیادہ مراعات اور عوام کے لئے ریلیف دینے کے ساتھ پی ایس ڈی پی میں اضافہ اور ترقیاتی سکیموں کا اعلان کرتی ہے۔ ان سب کے لئے ضروری ہے کہ حکومت ریونیو اکٹھا کرئے، خوراک اور پانی، توانائی کے تحفظ، روڈ انفراسٹرکچر میں بہتری، سی پیک پر عملدرآمد میں تیزی، سپیشل اکنامک زونز کی تعمیر اور انہیں آپریشنل بنانے پر توجہ، موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف اقدامات، ٹیکنالوجی کا فروغ اور عوام کی رسائی کو یقینی بنانے کے ساتھ پائیدار ترقی کے اہداف کو حاصل کرنا حکومت کے بڑے چیلنجز ہوتے ہیں۔ ان تمام منصوبوں اور ٹارگٹس کو حاصل کرنے کے لئے حکومت کو بیرونی سرمایہ کاری پر فوکس کرنا ہوگا۔ یہ وہ ٹارگٹس ہیں جن کو حاصل کر کے پاکستان میں پائیدار ترقی کو یقینی بنایا یا جاسکتا ہے۔ عوام کو بے روزگاری سے نجات مل سکتی ہے اور عوام کا معیارِ زندگی بُلند ہو گا۔
بقلم: کاشف شہزاد