جب انسان کے پاس پیسہ آتا ہے تو وہ اسے آگ کی طرح بھڑکا دیتا ہے، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ پیسہ ہاتھ کی میل ہے یہ دائیں ہاتھ سے آتا ہے اور بائیں سے نکل جاتا ہے، زندگی کو بہتر بنانے کے لئے یہ ایک حیرت انگیز ذریعہ ہوسکتا ہے ، لیکن غیر تربیت یافتہ یا لاپرواہ ہاتھوں میں یہ ہمیں جلا دیتا ہے اور تباہی کے دہانے پر لے جاتا ہے۔ ہمارے اولاد کے مستقبل پر روپے پیسے کا نمایاں اثر پڑتا ہے۔ اگر ہمارے پاس پیسہ ہے تو یہ مواقع فراہم کرتا ہے، اور اگر ہمارے پاس پیسہ نہیں تو یہ ہمارے مستقبل کو محدود کر دیتا ہے۔ ان دو متنوع راستوں کی موجودگی سے ہمارے بچوں میں تناؤ اور جذبات بڑھ جاتے ہیں۔ یہ پوشیدہ تناؤ اولاد کے والدین کے ساتھ تعلقات کو متاثر کرتا ہے۔ خاص طور پر جب ہم آپس میں بیٹھے دولت پر تبادلہ خیال کر رہے ہوتے ہیں تو بیک وقت ہماری اولاد بھی اسی دولت کی آڑ میں اپنے مستقبل اور خاندانی دولت کے بارے بہت سی توقعات سمیٹ رہی ہوتی ہے, اگر بچوں کی ان توقعات پر پورا نہ اُترا جائے تو پھر گھر کے گھر تباہ ہو جاتے ہیں۔
جو والدین یہ احساس نہیں رکھتے کہ اگلی نسل پر دولت کی منتقلی کس طرح اثر انداز ہوتی ہے ، وہ اپنی اولاد کے مستقبل سے بالکل بے خبر ہوتے ہیں اور وہ اپنے ارادوں پر اولاد کے ساتھ گفتگو کرنے سے ہمیشہ پرہیز کرتے ہیں جس سے اولاد کے اندر ایک غبار والدین کے خلاف کرود کی صورت میں بن جاتا ہے جو مستقبل قریب میں انتہائی نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔
یقیناّّ پیسہ جیسے آتا ہے ویسے ہی چلا جاتا ہے، ہمیں انسانی زندگی میں بہت سے واقعات ایسے ملتے ہیں جو ہماری آنکھوں کے سامنے ہو گزرے ہیں مگر پھر بھی ہم لوگوں نے کبھی غور نہیں کیا، کچھ واقعات تو ایسے ہیں جنکی تفصیلات ناصرف سبق آموز ہیں بلکہ عبرت ناک ہیں۔ ربِ ذوالجلال ایسی کمائی اور رزق سے ہمیشہ بچائے رکھے جسکی آخر میں کہانی موت یا جیل ہو۔
پیسے کے متعلق ایک ایسی ہی ناگہانی کہانی آپ کے گوش گزار کرتے ہیں جس سے ناصرف آپ کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں گے بلکہ آپ ہمیشہ ایسی دولت سے دور رہنے کی دعا کریں گے۔
ریمنڈ ڈیوس تو آپکو یاد ہو گا جو کہ
CIA
کا خاص کرندہ تھا اور صدر باراک اوباما کے دورِ حکومت میں پاکستان میں اسپیشل سیکیورٹی کی ڈیوٹی پر معمور تھا۔ ایک دن اس نے راہ چلتے دو جوانوں فیضان حیدر جسکی 22 سال عمر تھی اور ابھی نئی نئی شادی ہوئی تھی اور محمد فہیم جسکی کی عمر 26 سال تھی یہ کہہ کر قتل کر دیا تھا کہ یہ دونوں ڈاکو ہیں کیونکہ یہ کافی وقت سے میری گاڑی کا پیچھا کر رہے تھے۔ پولیس کی تفتیش میں دونوں جوان بے گناہ نکلے مگر بڑے ملک کا بندہ تھا آخر پولیس اور حکومت نے معاملہ رفعہ دفعہ کروانے میں آپنا کردار ادا کیا اور دیت پر دونوں گھرانوں کو راضی کر لیا۔
ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے لیے مرنے والوں کے لواحقین کو خون بہا کے طور پر دی جانے والی دیت کی منحوس چوبیس کروڑ کی رقم خاندان کے اٹھارہ افراد کے لیے خونی بن کر ان کی تباہی اور بربادی کا باعث بن گئی یہ داستان یقیناّّ سُننے اور پڑھنے والوں کے لیے عبرت کی ایک مثال ہے۔
اس قتل کے بعد فیضان حیدر کی اہلیہ زہرہ جو رو رو اور چلا چلا کر کہتی تھی کہ مجھے فیصان کی موت کے پیسے نہیں چاہیے اپنے خاندان اور پیسوں سمیت جوہر ٹاون کی خوشحال آبادی میں منتقل ہو گئی۔ مقتول فیضان کا مکینک سُسر شہزاد بٹ اپنا زیادہ وقت گھر کی چھت پر ہوائی فائرنگ کر کے گزارنے لگا۔ اس خاندان کی زندگی میں نیا ڈرامائی موڑ اس وقت آیا جب مقتول فیضان کے سُسر شہزاد بٹ نے دوسری شادی کرلی اور ساتھ ہی فیضان کی بہن نے بھی ایک لالچی شخص سے شادی کر لی ۔ فیضان کی بیوی زہرہ اور شیرخوار بیٹے کو کل پانچ کروڑ ملے تھے، زہرہ دوسری شادی کرنا چاہتی تھی لیکن باپ لڑکے کو پسند نہیں کرتا تھا، ماں نیببلہ بیٹی کی طرف دار تھی۔ فیصان کے سسر نےطیش میں آکر پہلی بیوی نیببلہ اور بیوہ بیٹی زہرہ دونوں کو قتل کر دیا اور اب اِس وقت جیل میں سڑ رہا ہے، پیسہ گھر اور گاڑی دوسری بیوی کے قبضے میں چلی گئی۔ وہ کسی دوسرے شخص کے چکر میں پڑھی، وہ شخص سارا مال لے کر غائب ہو گیا۔ فیضان کے دوسرے بھائی بھی دولت گنوا کر کوڑی کوڑی کے محتاج ہو گئے۔
ادھر دوسرے مقتول فہیم کے لواحقین بھی رقم کے لیے لڑتے رہے۔ یہ آدھا خاندان بھی قتل ہو گیا، کروڑوں کی رقم میں سے کچھ وکیل کھا گئے، کچھ پولیس کھا گئ اور کچھ رشتہ داروں نے ہڑپ کر لیا-
یہ خاندان اس وقت کمپسپری کی زندگی گزار رہا ہے۔ مقتول فہیم کی بیوی شمائلہ نے زہر کھا کر خودکشی کر لی اور بعد میں پیسوں کے لیے اس کا خاندان بھی لڑتا رہا۔ اس خاندان کے کچھ افراد بھی جیل میں گئے۔
اس کیس کو لڑنے والے وکیل نے بھی اس میں سے کروڑوں کمائے مگر کورونا وباء میں وہ پیسہ بھی اس کے کام نہ آیا اور وہ کورونا وباء کی نظر ہو گیا اور اپنی ساری دولت ادھر ہی چھوڑ گیا۔ بے شک انسان یہی سوچتا ہے کہ جو پیسہ اسے جلد بازی، شارٹ کٹ اور بغیر محنت سے ملا ہے وہ ہمیشہ اس کے پاس رہے گا مگر وہ یہ بھول جاتا ہے کہ اس بے مطلب اور بغیر محنت کی دولت کے پیچھے اسکی موت کے بے شمار اسباب پوشیدہ ہیں۔ میرے خیال سے اس عبرتناک کہانی کے بعد انسان کو چاہیے کہ ہمیشہ محنت کی کمائی پر بھروسہ رکھے، یاد رکھیں آج اگر کسی کا حق کھائیں گے تو کل کو کوئی آپکی اولاد کا حق کھائے گا۔
بقلم:کاشف شہزاد