نور مکدم کے جاننے والے اُسے ہمیشہ مسکراہٹ بخش ، اور خوشگوار طبیعت کی بے لوث عورت کے طور پر بیان کرتے ہیں، مگر اس کے ساتھ جو ہوا اسے وحشی پن سے کم کسی بھی طرح بیان نہیں کیا جاسکتا۔ نور اور ظاہر بچپن کے دوست تھے اور ان کے گھرانے ایک دوسرے کو جانتے تھے۔ نور مکدم چاند رات پر اپنے گھر میں ظاہر جعفر سے ملنے گئی تھی کیونکہ وہ ایک دن بعد اپنی ماسٹر ڈگری کے لئے امریکہ جارہا تھا۔ منگل 19 جولائی کو جب سب عورتیں اپنے ہاتھوں پر مہندی لگانے اور عید کی خوشیوں کی تیاری میں مصروف تھیں ، نور کے والد (سابق سفیر) شوکت علی مکدم کو فون آیا جو کہ میں دعا کرتا ہوں کہ کسی بھی والد کو موصول نہ ہو، کہ تھانہ کوہسار پولیس اسے فوری طور پر طلب کر رہی ہے۔پولیس افسران انہیں ایف 7/4 میں ظاہر جعفر کے گھر لے گئے ، یہ پتہ شوکت مکدم صاحب کو اچھی طرح معلوم تھا کیونکہ انکا کنبہ کئی سالوں سے اس گھر سے واقف تھا۔ نور کے والد جب کمرے میں داخل ہوئے تو دیکھا فرش خون میں ڈوبا ہوا تھا اور ایک کونے میں انکی کی بیٹی بے جان پڑی تھی ، نور کا سر کاٹ کر الگ کونے میں پھینک دیا گیا تھا۔ فرانزکس رپورٹ میں بتایا گیا کہ نور کو پہلے گولی ماری گئی اور پھر اس کا سر قلم کردیا گیا۔ جب ظاہر (قاتل) کی چھوٹی بہن نے اس کی آواز سنی، اُنہوں نے پولیس کو پولیس کو اطلاع دی لیکن جب پولیس وہ وہاں پہنچے تو یہ جرم ہوچکا تھا، نور کٹ چُکی تھی۔ اس واقعے کے بعد جس باپ کو اپنی 27 سالہ جوان بیٹی کی سر کٹی لاش تھما دی جائے، اور اسکی تدفین کا بھی انتظار نہ کیا جائے، اور اس سے صلح اور دیت کی باتیں کی جائیں تو اس پر کیا گزرے گی، وہ بھی صرف اس لئے کہ سفاک قاتل ظاہر جعفر جو کہ دُہری شہریت کا حامل شخص ہے کسی طرح پاکستان سے بھگایا جائے تاکہ وہ آزاد ہو سکے۔ دنیا میں کہیں بھی اس طرح کے وحشیانہ جرم کا ارتکاب کیا جائے، ظلم کا نشانہ بننے والے اہل خانہ کو اس طرح کی اذیت سے ضرور دوچار ہونا پڑتا ہے صرف اس لئے کہ قاتل اثر رسوخ رکھنے کے ساتھ بے بہا پیسے اور شہرت والا ہوتا ہے۔ میں ایمانداری کے ساتھ یہ کہنا چاہتا ہوں کہ گو لبرل قاتل ظاہر جعفر اور اسکے باپ کے پاس بے شمار دولت اور عزت ہوگی اور وہ بے حد اثر رسوخ والے لوگ ہوں گے, ان کے پاس پیسہ تھا تو انہوں نے برسوں پہلے اپنے بیٹے کی منشیات چھڑوانے پر اپنا پیسہ کیوں نہ لگایا؟ انہوں نے کیوں یہ یقینی نہیں بنایا کہ ان کا پرتشدد اور غیر متوقع بیٹا دوسرے لوگوں کی جان کے ساتھ نہیں کھیلے گا۔ انہوں نے کیوں اسے بندوق اور چاقو کی اجازت دی؟ اتنا سب ہونے کے بعد قاتل کے والدین اب اسے ذہنی مریض ثابت کرنا چاہ رہے ہیں جو کہ مختلف میڈیا رپورٹ کے مطابق ایک غیر تصدیق شدہ کچرا نما بات ہے۔ کیونکہ اگر وہ ذہنی طور پر غیر مستحکم تھا تو اسے دارالحکومت شہر اور مختلف پارٹیوں میں آزادانہ گھومنے کی اجازت کیوں دی گئی؟ اگر وہ بہت متشدد تھا ، تو اسے اپنے والد کے بزنس کا چیف پلانر کیوں مقرر کیا گیا؟ اگر وہ اتنا غیر متوقع تھا تو کیوں وہ ماسٹر ڈگری کے لئے دوبارہ امریکہ جا رہا تھا۔ اگر وہ واقعی ذہنی مریض تھا تو وہ اسکولوں میں کونسلنگ سیشن دینے کے لئے کیوں جا رہا تھا؟ یہ سب حیلے اور بہانے اس بے شرم، سفاک اور بربریت کے مجسم لبرل قاتل کو اس مُلک سے بھگانے کے لئے کئے جا رہے ہیں
جبکہ نور کے والد شوکت علی مکدم نے اپنی موت کی آخری سانس تک اپنی بیٹی کے لئے انصاف کے لئے لڑنے کا حلف لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں یہ بھی قسم کھاتا ہوں کہ میں اپنی بیٹی کے وحشیانہ اور پرتشدد قاتل کو
فرار نہ ہونے کو یقینی بنانے کے لئے اپنی ہر ممکن کوشش کروں گا۔ یقیناٙٙ نور مکدم کے قتل کا واقعے بہت دردناک معاملہ ہے، اس پر بڑی بیان بازی ہو رہی ہے، مگر اس بیان بازی میں ایک بات البتہ کسی نے نہیں کہی کہ لبرل کتنے خوفناک اور سفاک ہیں، خواتین کے گلے کاٹتے پھرتے ہیں۔ اگراس میں کوئی مذہبی ملوث ہوتا تو میڈیا اور سوشل میڈیا پر مردوں اور اسلام کی مخالفت میں کہرام اور الزامات کی برسات ہوتی، اُنہیں سرِ عام چوکوں اور چوراہوں میں پھانسی لگانے کے لئے باقاعدہ مہم چل چُکی ہوتی، چونکہ یہ ایک مرد لبرل کا دوسری لبرل عورت کا قتل ہے اس لئے ہمارا میڈیا اور لبرل پسند لوگوں کے مُنہ میں آبلے پڑ چُکے ہیں۔
بقلم: کاشف شہزاد