خدائے کریم نے انسان کو ایک ایسی مخلوق بنایا ہے جس میں متضاد صلاحیتیں پائی جاتی ہیں، اس میں نیکی اور بھلائی کا رُجحان بھی پایا جاتا ہے جبکہ شر اور بُرائی کی طرف میلان بھی۔ وہ اپنے بہتر کردار کے ذریعے گلشنِ انسانیت کو سنوار بھی سکتا ہے اور اپنی بد کرداری کے باعث اسے خزاں رسیدہ بھی بنا سکتا ہے۔ وہ اپنی صلاحیت و استعداد کے لحاظ سے دو دھاری تلوار ہے۔ شریعت کا خلاصہ یہی ہے کہ اسکی صلاحیتیں خیر کے کاموں میں استعمال ہوں اسی لئے خدائے رحیم و کریم نے صرف اس بات کی تلقین نہیں فرمائی کہ انسان اچھا عمل کرئے بلکہ اس بات کو بھی واجب قرار دیا کہ دوسروں کو حُسنِ عمل کی دعوت دے اور انہیں نیکی کی طرف بُلائے۔ دورِ حاضر میں اس خیر کے کام کا بیڑا ایک با کردار، با وصف اور مستند شخصیت مکرمی سید قاسم علی شاہ صاحب نے اُٹھایا ہے۔ برادر قاسم علی شاہ 25 دسمبر 1980 کو پنجاب کے قدیمی خطہ یونان کی پُرانی شہرت رکھنے والی سخنوروں کی بستی گجرات کے گاوّں معین الدین پور میں پیدا ہوئے۔ اس بستی میں ہر طرف اشخاص عام تو مل جاتے ہیں مگر اشخاص کے ہجوم میں شخصیت تلاش کرنے نکلیں تو چراغ رُخِ زیبا بھی کام نہیں آتا۔ ایسے میں ایک شخص تعلیم و تربیت افکار، کردار، انداز و اطوار اور تحریر و تقریر کے حسین امتزاج کی بدولت شخص سے شخصیت بن کر چمکنے لگے تو قابلِ ذکر اور لائقِ تحسین ہو جاتا ہے۔ مکرمی شاہ صاحب کا تبحرِ علمی، شخصی وقار اور ادبی مقام بچپن سے ہی متاثر کُن اور ناقابلِ فراموش تھا یہی وجہ ہے کہ آج وہ ستاروں میں چاند کی مانند خوبصورت اور ٹھنڈی روشنی بکھیر رہے ہیں جس سے ہر کوئی استفادہ لے رہا ہے۔ مکرمی شاہ صاحب نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے گاوّں ہی سے جبکہ ایف ایس سی کی تعلیم گورنمنٹ اسلامیہ کالج سول لائنز لاہور سے حاصل کی اور بعد ازاں پاکستان کی بہترین یونیورسٹی UET سے کیمیکل انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کر کے اپنے خاندان کے وقار کو چار چاند لگا دئیے۔ شاہ صاحب بچپن سے ہی غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک انسان تھے یہی وجہ تھی کہ یونیورسٹی کا ہر سٹوڈنٹ اور ٹیچر انہیں اپنے عہد میں پہچانتا تھا۔ شاہ صاحب نے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد سی ایس ایس کے امتحان کی تیاری شروع کی اور اسے پاس کر کے اچھے سرکاری عہدے پر تعینات ہو گئے مگر ربِ ذوالجلال نے ان سے بہت سے خیر کے کام لینے تھے اس لئے انہوں نے اس عہدے سے استعفیٰ دیا اور معلمی پیشہ کو اپنی زندگی کی آخری نہج بنایا اور قاسم علی شاہ اکیڈمی کے نام سے ایک ادارہ لاہور میں قائم کیا۔ اس ادارے کا کام اسقدر منفرد تھا کہ دیکھتے ہیں دیکھتے یہ گلوبل دُنیا پر چھا گیا اور اس میں سینکڑوں سے ہزاروں اور ہزاروں سے لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کا دن بدن اضافہ ہوتا چلا گیا آج اس ادارے کو لوگ قاسم علی شاہ فاوّنڈیشن کے نام سے جانتے ہیں جو لاہور کے پوش علاقے میں لاکھوں لوگوں میں علمِ درویشی بھانٹ رہا ہے۔ برادر قاسم علی شاہ نے اپنے شوقِ مطالعہ سے اسقدر الفاظ کا ذخیرہ اکٹھا کر لیا ہوا ہے کہ اب انکی موٹیویشنل سپیچ ایک جینر کی سی حثییت رکھتی ہے، اس قسم کی سپیچ کی ابتداء بیسویں صدی میں ڈیل کارنیگی سے ہوئی، جو اپنے عہد میں ہزاروں لوگوں کے دلوں پر راج کرتا رہا، یہ شخص لوگوں کو اُمید کا درس دیتا جبکہ مایوسیوں کو چھوڑ کر کامیابی و کامرانی کے راستے کو اپنانے کی ترغیب دیتا۔ مگر میرے مُلک پاکستان میں اس اسلوب کو متعارف کروانے کا سہرا برادر قاسم علی شاہ کو جاتا ہے جنہوں نے اس میدان میں نہ صرف اپنا لوہا منوایا ہے بلکہ دُنیا کو ایک منفرد اسلوب بھی متعارف کروایا ہے۔ برادر قاسم علی شاہ جن کے نام اور آواز کی اُڑان سے دُنیا واقف ہے ایک ایسے معلم ہیں جو دورِ خاضر میں تدریسی مزدوری میں جکڑے اُساتذہ کے لئے رول ماڈل کی حثییت رکھتے ہیں۔ مکرمی شاہ صاحب کی نہ صرف اپنی فکری اُڑان بُلند ہے بلکہ وہ دوسروں کو بھی اُڑنا سیکھانے کا ملکہ رکھتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ آپ کوئی بڑے عالم یا محقق نہیں بلکہ اپنے ذوق و شوق کے سبب بڑے لوگوں کی صحبت سے فیضاب ہونے والے صاحبِ فضل انسان ہیں۔ وہ شخص جس نے طویل عرصہ علم و تجربہ میں اپنا حصہ ڈالا ہو اس کی باتیں سادگی اور پرکاری کا امتزاج ہو جاتی ہیں وہ شخص جب بولنے لگتا ہے تو علم حُسنِ ابلاغ کے پروں پر پرواز کرنے لگتا ہے، جب تبصرہ کرتا ہے تو انکا تبصرہ کتابوں کا خلاصہ ہوتا ہے۔ اسی طرح مکرمی شاہ صاحب جب اپنے تجربات بیان کرتے ہیں تو وہ برسوں پر محیط سفر کو منٹوں میں سمیٹ رہے ہوتے ہیں، انکا ہر لفظ کتاب ہوتا ہے اور انکی ہر تقریر حاصل مطالعہ ہوتی ہے۔ مکرمی شاہ صاحب لوگوں کی زندگیاں بدلنے کے لئےمختلف طریقوں سے لوگوں کے دلوں میں اُترئے جن میں فیس بُک، یوٹیوب پر تقاریر سرِ فہرست ہیں مگر جن لوگوں کو مطالعہ کا شوق تھا انکے لئے شاہ صاحب نے خوبصورت الفاظ اور اکابرین کی باتوں سے مزین تقریباٙٙ 9 کتابیں پبلیش کیں، جن میں زندگی محدود نہیں ، ذرا نم ہو، کامیابی کا پیغام، خود اعتمادی، اپنی تلاش، اُونچی ُاُڑان اور بڑی منزل کا مسافر سر فہرست ہیں برادر قاسم علی شاہ کی مذکورہ کُتب کی فہرست سے عیاں ہوتا ہے کہ آپ ہمہ جہت شخصیت کے مالک شخص ہیں، آپ خوبصورت محقق، سائنسدان، تاریخ دان، سوانح نگار اور نقاد ہیں۔ آپ یقیناٙٙ دوستوں کے دوست، فرمانبردار فرزند، چُلبلے مزاج کے جوان، قابلِ تکریم اُستاد، محبِ وطن پاکستانی اور درویش صفت انسان ہیں۔ میرے خیال سے اتنے پہلووّں کو بیک وقت مقدار اور معیار سے روشن رکھنا عام سے شخص کے بس کی بات نہیں اس کے لئے شخص کو خود کو شخصیت کے قالب میں ڈالنا پڑتا ہے تب جا کر انسان روزِ روشن کی طرح چمکتا ہے۔ حقیقی معنوں میں شاہ صاحب نستلیق شخصیت کے مالک انسان ہیں جنہوں نے اپنے ہر وصف کو محبت اور محنت سے ہمیشہ دو آتشہ رکھا۔ آج انکی شخصیت ہر گھر میں موجود آپنا فیض بکھیر رہی ہے۔ شاہ صاحب نے اپنی کتابوں اور کاموں کے اتنے روپ تخلیق کئے ہیں کہ کئی نسلوں تک انہیں فراموش کرنا ممکن نہ ہوگا۔
برادر قاسم علی شاہ کا اسلوب انکے اندازِ فکر اور اطوارِ حیات کا امتزاج ہے، انکا یہی زاویہ نظر لوگوں کو بُلند منزلوں کی پرواز سیکھاتا ہے جو انسان کو لازوال کامیابیوں اور کامرانیوں کی نوید بھی دیتا ہے۔ آئیے ملکر دعا کریں کہ ربِ کریم شاہ جی جیسے عظیم اور بے بہا قیمتی موتیوں کو صحت و عافیت سے ہمیشہ رکھے اور انکی آواز میں مزید لطافت پیدا کرئے کہ جب یہ بولیں تو پرندے بھی رُک کر انہیں سُننے کی جُستجو کریں۔
بقلم: کاشف شہزاد