اب تک پوری دُنیا کی نظریں افغانستان کی جانب مرکوز تھیں کہ طالبان حکومت کا اعلان کب کریں گے، اب جب یہ اعلان ہو گیا ہے تو اب طالبان کو اپنے ملک میں قیامِ امن اور عوام کی ترقی اور خوشحالی کے لئے کام کرنا ہوگا۔ یقیناٙٙ حکومت کے اعلان کے بعد افغانستان میں آج کے بعد مرضی افغانیوں کی چلے گی، اب سے کسی کی وہ دخل اندازی برداشت نہیں کریں گے۔ افغانستان کی عبوری حکومت کا اعلان ایک اہم پیش رفت ہے، جسکا کئی ہفتوں سے انتظار کیا جا رہا تھا، اس اعلان سے کم از کم افغانستان کی نئی شناحت واضح ہو سکے گی۔ کابل کا کنٹرول سنبھالے طالبان کو تقریباٙٙ تئیس روز ہو چکے تھے مگر حکومت کے قیام کے بارے صرف چہ میگوئیاں تھیں کہ ایک ایسی ریاست جس میں کوئی باقاعدہ حکومتی ڈھانچہ نہ ہو اس کے ساتھ کوئی ملک کیسے معاملات کا آغاز کر سکتا ہے جبکہ داخلی سطح پر یہی خلا بے یقینی میں اضافے کا سبب بن رہا تھا۔ افغانستان کا یہ ماحول اضطراب سے بھرپور تھا تاہم جز وقتی ہی سہی حکومت کے اعلان سے افغانستان کی صورتحال میں اطمینان بخش تبدیلی کی توقع کی جا سکتی ہے۔ حکومت کے اعلان کے تحت افغانستان کی باگ دوڑ ملا محمد حسن اخوند کو سونپی گئی ہے اور ملا عبدلغنی برادر کو انکا نائب مقرر کیا گیا ہے۔ افغانستان کے لئے بظاہر کوئی عسکری مزاحمت باقی نہیں رہی مگر طالبان کے لئے ابھی چیلنجز ختم نہیں ہوئے۔ حقیقت میں طالبان کے لئے عسکری مزاحمت سے کہیں بڑے چیلنجز شہری مطالبات حقوق سماجی اطمینان، قیامِ امن اور افغانستان کے پائیدار مستقبل کے تقاضوں کی صورت میں بدستور موجود ہیں، چنانچہ نئی افغان حکومت کے عہدیداروں کا سب سے بڑا امتحان یہی ہے کہ انہیں جو ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں وہ انہیں پورا کریں۔ حکومتی معاملات کو سنبھالنے میں طالبان کے چیلنجز ڈھکے چھپے نہیں۔ پچھلے بیس برس وہ ایک مزاحمتی گروپ کے طور پر مصروف رہے ہیں ان حالات میں حکومت سازی کی تربیت و تجربہ خارج از امکان ہے۔ اس طویل دور میں طالبان نے صرف تنظیمی نظم و ضبط ہی سیکھا اور یہی وہ قوت ہے جس نے عسکری تنظیم کے طور پر طالبان کا وجود برقرار رکھا البتہ 2010 سے قطر میں طالبان کے دفتر کے قیام سے عالمی برادری کے ساتھ طالبان کی بات چیت اور سفارتکاری کا باب شروع ہوا اور اس سہولت کو طالبان جس طرح بروّئے کار لائے اس کا حتمی نتیجہ پرُ امن طور پر طالبان کی کابل واپسی کی صورت میں سامنے آ چکا ہے۔ مگر ایک ریاست کو چلانے کے لئے اقتصادی امور، تعلیم، صحت، مواصلات، بجلی، پانی، پٹرولیم جیسے متعدد امور ایسے ہیں جن میں کارکردگی کا انحصار تجربے اور رسمی تعلیم و تربیت پر ہے چنانچہ طالبان کی کابینہ کے لئے کارکردگی کا چیلنج واضح ہے۔ بہرکیف عبوری حکومت کا قیام وقت کی ضرورت تھی اور اسے محض اس جواز سے موّخر کرنا مناسب نہ تھا کہ اعلیٰ صلاحیت کے لوگ تلاش کئے جا رہے ہیں۔ حکومت سازی کی جانب یہ پہلا قدم ہے اور اس میں یہ آپشن کھلا ہے کہ بہتر صلاحیت کے لوگ جہاں دستیاب ہوں گے یا موجودہ عہدیداروں کو بدلنے کی ضرورت پیش آئے گی تو تبدیلیاں کی جا سکتی ہیں۔ ابھی کئی ایسے شعبے ایک ریاست میں جو اہم ترین ضرورت ہوتے ہیں طالبان کی موجودہ کابینہ میں شامل نہیں جیسا کہ شعبہ صحت، صحت کے امور کے لئے افغانستان میں ترجیحی بندوبست کی ضرورت ہے۔ افغان حکومت کا یہ جزوی سیٹ اپ سر دست معاملات کو سنبھالنے میں تو مدد دے سکتا یے مگر یہ واضح رہے کہ آگے چل کر مزید منصوبہ بندی کے ساتھ جامع حکومت بنانا ملکی مجبوری ہوگی، وہ بھی ایسی حکومت جو طالبان کی جانب سے یقین دہانیوں اور وعدوں کو پورا کرتی ہوئی نظر آئے۔ افغانستان میں اب حکومت قائم ہو چکی ہے پوری دُنیا کو چاہیے کہ وہ جنگ زدہ ملک میں جو مسائل ہیدا ہو چکے ہیں انہیں حل کرنے کے لئے طالبان کی مدد کریں کیونکہ اس وقت افغان عوام کو شدید مشکلات کا سامنا ہوگا جبکہ طالبان کو بھی ملک کی تعمیرِ نو میں مشکل ہو سکتی ہے اس لئے پاکستان سمیت خطے کے تمام ممالک ملک ملکر افغانستان کی تعمیرِ نو میں طالبان کا ساتھ دیں ناکہ ان پر تنقید کریں جیسا کہ بھارت کر رہا ہے وہ نہ صرف طالبان بلکہ پاکستان کے خلاف بھی زہر اگل رہا ہے جو کہ کسی صورت درست نہیں۔ پاکستان اس وقت افغانستان کے حوالے سے اپنی ذمہ داری پوری کر رہا ہے تاہم دُنیا کو بھی افغانستان کے مسائل کو سمجھنا ہوگا اور اسے دیگر ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کرنے کے لئے کردار ادا کرنا ہوگا جو کہ نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے مفاد میں ہوگا۔
بقلم: کاشف شہزاد