یہ حقیقت ہے کہ غربت بھوک و افلاس کا نام ہے، غربت کی مختلف اصطلاحات ہیں دوسرے لفظوں میں کہا جائے تو جب کسی کے پاس اتنی رقم میسر نہ ہو کہ وہ اپنا اور اپنے اہل و عیال کا پیٹ بھر سکے تو یہ بھی غربت ہے یا اگر کوئی بیمار ہو جائے اور اسکے پاس اتنی مالی استعداد نہ ہو کہ وہ میڈیسن حاصل کر سکے تو یہ بھی غربت ہے۔ اگر کسی کے پاس سر چھپانے کی جائے پناہ نہ ہو تو یہ بھی غربت ہے۔ یہ وہ پیمانے ہیں جو کم از کم معیارِ زندگی کو مدِ نظر رکھ کر گنوائے جا سکتے ہیں۔ غربت بڑھنے کی وجہ جاننے کے لئے ہونے والی تحقیق سے دُنیا میں اب تک غربت کی پانچ بڑی وجوہات سامنے آئی ہیں جن میں تیزی کے ساتھ آبادی میں اضافہ، مونوپولی
(Monopoly)
میں اضافہ، جنگیں، قدرتی آفات، وسائل کی ناقص تقسیم اور علم و ہنر کی کمی شامل ہے۔ جہاں تک غربت کے عالمگیر منظر نامہ کا تعلق ہے تو دُنیا کے تمام غریب، ترقی پذیر اور پسماندہ ملک یکساں معاشی مسائل کا شکار ہیں۔ غربت انکے پاوّں کی زنجیر ہے۔ پاکستان پچھلے چوبیس برس سے ایک ایٹمی قوت ہے مگر اسکی آبادی کی ایک بہت بڑی تعداد غربت کی لکیر کے قریب یا اس سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ اسکی آبادی کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ غربت کے اعداد و شمار میں بھی روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ جنوبی ایشیاء میں جاری عسکری برتری کی دوڑ میں نہ صرف پاکستان بلکہ دیگر ہمسایہ ممالک کے عوام کو غربت کی دلدل میں مسلسل دھکیلا جا رہا ہے۔ پاکستان میں غربت میں اضافے کی شرح 4.4 فیصد سے بڑھ کر 5.4 فیصد ہو گئی ہے اور مزید بیس لاکھ سے زائد افراد خطِ غربت سے نیچے چلے گئے ہیں جبکہ 40 فیصد کنبوں کو درمیانے سے لیکر انتہائی درجے کے غذائی عدم تحفظ کا سامنا کرنا پڑ رہا، ان اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے مُلک کی آبادی کا ایک بڑا حصہ تعلیم، صحت اور زندگی بسر کرنے کے لئےبنیادی ضروریات سے محروم ہے۔ کورونا وائرس کی وجہ سے لوگوں کی اکثریت اپنی قلیل اور مزید کم ہوتی ہوئی آمدنی اور بڑھتی ہوئی مہنگائی سے اپنے خاندان کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔ پچھلے تین سالوں میں بڑھتے ہوئے افراطِ زر خصوصاٙٙ اشیائے خوراک کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ کی وجہ سے بھی مزید لاکھوں افراد غربت کے قریب پہنچ گئے ہیں۔ پاکستان میں متمول طبقہ ایک اندازے کے مطابق اپنی آمدن کا تقریباٙٙ 20 سے 30 فیصد حصّہ خوراک پر خرچ کرتے ہیں۔ لیکن نچلے متوسط اور غریب طبقے کے لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد اپنی آمدن کا 70 سے 80 فیصد حصہ خوراک پر ہی خرچ کرتے ہیں۔ اس لئے اشیائے خوراک کی قیمتوں میں اضافے نے اس طبقے کو بُری طرح متاثر کیا ہے اور بیشتر کو مزید غربت کی طرف دھکیل دیا ہے۔ ماہرین معاشیات کے خیال میں صرف پچھلے 3 سالوں کی افراطِ زر کی وجہ سے تقریباٙٙ 40 لاکھ نئے لوگ غربت کا شکار بنے ہیں۔ غربت کی وجہ سے تقریباٙٙ 2 کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق نائجیریا کے بعد پاکستان میں سب سے زیادہ بچے سکولوں میں نہیں جا پاتے، یہ اٙن پڑھ بچے بڑے ہوکر غربت، بے روزگاری اور جرائم میں مزید اضافے کا باعث بنیں گے۔ غربت میں اضافے کو روکنے کے لئے ہمیں اپنے ٹیکس جمع کرنے کے نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ ٹیکس جمع کرنے کے موجودہ، فرسودہ اور بد عنوان نظام کی وجہ سے ریاست کو ضروری وسائل مہیا نہیں ہو پاتے جن کی وجہ سے مختلف فلاحی منصوبوں اور سماجی شعبوں میں مناسب سرمایہ کاری نہیں ہو پاتی۔ ہمارا ٹیکس کا نظام غریبوں پر ٹیکس کا بوجھ امیروں سے زیادہ بڑھتا ہے۔ ایک تحقیق سے پتا چلا ہے کہ ہمارے 80 فیصد سے زیادہ ٹیکسوں کی وصولی درمیانے اور غریب طبقے سے بجلی، گیس، موبائل فون، پٹرول، اور عام استعمال کی دیگر اشیاء پر عائد ٹیکسوں سے حاصل کی جاتی ہے جبکہ امیر ترین طبقہ صرف 5 فیصد کے قریب ٹیکسوں کی صورت میں ادائیگی کرتا ہے۔ اس غیر منصفانہ نظام میں اصلاحات لانے کی اشد ضرورت ہے جن میں غریبوں پر ٹیکس میں کمی اور کم آمدن والے لوگوں کی زندگی بہتر بنانے کے لئےمالی وسائل مہیا کرنا وغیرہ شامل ہوں۔ غربت میں کمی پاکستان کے لئے اشد ضروری ہے ورنہ بڑھتی ہوئی آبادی، اور تعلیم میں کمی کی وجہ سے جلد ہی ہم پُرتشدد سماجی بحران کا شکار ہو سکتے ہیں لہذا غربت کے مسئلے سے نمٹنے کے لئے درست منصوبہ بندی کا ہونا بہت ضروری ہے جسے بنیاد بنا کر اس ناسور کو اپنے مُلک سے اکھاڑ باہر پھینکیں۔
بقلم: کاشف شہزاد