عرشِ عظیم کے مالک نے رسولِ اکرمؐ کو پوری کائنات کے لئے رحمت اللعالمین بنا کر بھیجا ہے، اُس رحیم و کریم ذات نے اپنے محبوبؐ کو ایسا بنایا ہے کہ نہ اس سے پہلے کوئی بنایا تھا نہ بعد میں بنے گا کیونکہ اُس ارفع ذات نے انہیں اعلیٰ، اکمل، انور حسب اور سب سے انسب بنایا ہے۔ دُنیا کے تمام کلمات ملکر بھی آپؐ کی شان کو بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ ربِ کریم کا قرآنِ مقدس میں ارشاد ہے "اے محبوبؐ ہم نے آپ کے ذکر کو بُلند کر دیا ہے” جس ہستی کا ذکر خالقِ دو جہاں بُلند کر دے اور ساتھ درود و سلام بھیجے اس ہستی کا مقام وہ ذات خود ہی جانتی ہے پھر اس ہستیِ اقدس کے متعلق کچھ بھی لکھنا انسانوں اور جنوں کے بس کی بات نہیں۔ اللّہ ربُ العزت نے نبی اکرمؐ کو بے شمار خصوصیات عطا فرمائیں جن کو لکھنا تو درکنار شمار بھی نہیں کیا جا سکتا۔ آپؐ کی ذاتِ اقدس الفاظ اور انکی تعبیرات سے بہت بُلند و بالاتر ہے۔ عظیم اللّہ کی ذات نے اپنے حبیبؐ کو سراج مُنیر کا لقب دیا، اور یہ صرف تمام انبیاء علیہم السلام میں سے صرف آپ کو ہی دیاجسکا مطلب روشن چراغ ہے یہ اس لئے لقب آپؐ کو ملا کہ آپؐ قیامت تک نبوت کا روشن آفتاب ہیں۔ آپؐ کے آفتاب کی کرنیں سب سے پہلے اصحاب پر پڑیں اور پھر تمام دُنیا پر پھیل گئیں اور انہی کرنوں کی بدولت دُنیا کے تمام خطوّں میں اسلام پھیل گیا اور ان کرنوں نے دُنیا میں ہر جگہ ہدایت کا نور پھیلا دیا۔ شانِ دو عالمؐ کو اگر سمجھنا ہے تو پہلے قرآنِ مجید کو سمجھنا ہوگا، ربِ ذوالجلال قرآن مقدس میں اپنے حبیبؐ سے یوں مخاطب ہے وما ارسلنک الا رحمة اللعالمین، اس آیت مبارکہ میں میں اللّہ کریم نے آپؐ کی رسالت و بعثت کو جہانوں کے لئے رحمت ہونے کے ساتھ محصور فرمایا کہ آپ سراپارحمت ہیں اور آپؐ کے علاوہ اس مقام پر کوئی فائز نہیں۔ اس قوتِ قرآنی سے آپؐ کے مقامِ رسالت و بعثت کی عظمت کا بیان یقیناٙٙ اس امر کا تقاضا ہے کہ علمائے اُمت اپنے علوم کو اور خطبائے اُمت اپنے خطبات کو، ادباء اپنی ادبی کاوشوں کو، کالم نویس اپنی تحریروں کو، مقررین اپنی تقاریر کو اس حسین و جمیل عنوان سے ضرور زینت بخشیں اور رحمت اللعالمین کو موضوعِ سُخن بنا کر خالقِ کائنات اور کون و مکان کے تمام عالموں کو نبیِ رحمتؐ کے انوار سے منور اور اسکی خوشبو سے معطر کرتے کرتے راہ سعادت کو سدھار جائیں۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ نبی آخر الزمان، ختم المرسلینؐ اس دُنیا و آخرت کی سب سے اعلیٰ و ارفع اور کامل ترین شخصیت ہیں جن پر جن و انس، فرشتے اور خود ربِ کریم درود بھیجتا ہے، جس طرح وہ خود ارفع و اعلیٰ ہیں اُسی طرح اُنکے عمل بھی اعلیٰ و نایاب ہیں جو انہوں نے انسانیت کو سیکھانے کے لئے کر کے دکھاۓمگر افسوس ہمارے پاس اللّہ کی کتاب اور نبیِ رحمتؐ کی حیات طیبہ بھی ہے لیکن ہم نے اسکا کبھی اپنی زندگی پر اپنے نظام پر اور اپنے کاروبار پر اطلاق نہیں کیا۔ کبھی بھی اپنی اس بد بختی کو نہیں کوسہ کہ ہمارے پاس محمدِ عربیؐ کی حیاتِ مبارک کا ایک ایک لمحہ محفوظ ہے مگر ہم نے اس کی کبھی پیروی نہیں کی۔ خدائے بزرگ و برتر نے تو فرمایا تھا کہ رسولؐ جو کچھ تمہیں دیں اُسے لے لو اور جس سے روکیں رُک جاوّ۔ کبھی ہم نے اس بات پر تدبر کیا کہ اس عظیم ہستی نے ہمیں کیا کچھ عنایت کیا ہے۔ اخلاق مروّت، نظم و ضبط، پاکیزگی، لہو و لعب سے مکمل گریز، اک اک لمحے کا درست مصرف۔ آپُ کی زندگی ہر ایک کے لئے مشعلِ راہ ہے۔ وہ سربراہِ حکومت بھی تھے، سپہ سالار بھی تھے اور سربراہوں کے لئے قابلِ تقلید اور روشن مثال بھی، وہ قاضی القضاء بھی تھے، انکے فیصلے، انکا انصاف، لائق پیروی اور مجسمِ ہدایت تھا۔ آپؐ ایک کامیاب ایماندار تاجر تھے، مُستقبل کے لئے انکی ہر بات ایک ہدایت نامہ تھی۔ اللّہ پاک اپنی کتابِ مقدس میں فرماتا ہے کہ اے ایمان والو اسلام میں پورے داخل ہو جاوّ اور شیطان کے قدموں پر نہ چلو بے شک وہ تمہارا کُھلا دشمن ہے۔ کبھی ہم نے سوچا ہے کہ ہم اسلام میں پورے داخل ہوئے ہیں یا نہیں؟ ہمارے بعض علمائے اکرام جو شاہی دسترخوانوں کے گرد بیٹھ کر اتراتے ہیں اُنہوں نے کبھی حکمرانوں کو بتایا کہ اسلام میں پورے داخل ہونے کا کیا مطلب ہے؟ جب اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے تو ہم نے کیا آج کی اصطلاحات، آج کی ٹیکنالوجی، آج کی اقتصادی، سائنسی ضروریات کے مطابق اس ضابطہ حیات پر کوئی دستاویز مرتب کی؟ ہمارے عزیز و اقارب، ہمارے دل و جان آپؐ پر قربان ہوں، آپؐ نے ہمارے دل ایمان کی روشنی سے منور کیے، آپؐ نے ہمیں جہالت کی تاریکیوں سے نکالا، آپؐ نے ہمیں عالمی طاقتوں کے مقابلے میں کامیاب کیا، ہمیں دُنیا میں ایک عظیم مرتبہ عنایت کروایا مگر ہمارے پیارے حضورؐ ہم شرمندہ ہیں کہ ہم آپکی نسبت پر فخر تو کرتے ہیں مگر عمل نہیں کرتے۔ ہم میں سے کچھ اپنی رسوم کو ہی اسلام کا نام دے کر دوسروں کو مسلط کرنا چاہتے ہیں اس لئے دھماکے کرتے ہی، کلاشنکوف چلاتے ہیں، ہم کافروں کو اتنا مُسلمان نہیں بناتے جتنا مُسلمانوں کو کافر قرار دیتے ہیں، اے اللّہ کے پاک رسولؐ ہم گناہگار ہیں خطا کار ہیں لیکن آپ کے اُمتی ہیں، آپ اپنی اُمت کے لئے ہر لمحہ فکر مند رہتے تھے۔ آپ بے شک سارے جہانوں کے لئے رحمت ہیں ہم آپ کے توسط سے قادرِ مطلق سے یہ التجا کرتے ہیں کہ اُمتِ مسلمہ کو اس راستے پر ڈال دے جس پر خالقِ حقیقی کی نعمتیں نازل ہوتی ہیں اور کامیابیاں مقدر بنتی ہیں تاکہ ہم میں وہ برائیاں ختم ہو جائیں جن سے آپؐ نے رُکنے کا حکم صادر فرمایا ہے۔ (آمین)
بقلم: کاشف شہزاد