پولیس کی ذمہ داری کسی بھی معاشرے میں امن و امان قائم رکھنا اور معاشرے کے مجبور طبقات کی مدد اور با اثر افراد کی چیرہ دستیوں سے ہر بے کس و مظلوم شخص کو بچانا ہے۔ پولیس در حقیقت ریاست کی طرف سے ایک ایسے کام پر مامور ہوتی ہے جس طرح اللّہ ربُ العزت فرشتوں کو اپنی مخلوق کی مدد کے لئے بھیجتا ہے اسی طرح ریاست پولیس کو نادار، بے کس اور مظلوموں کی داد رسی کے لئے بھیجتی ہے۔ ملکی تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ پاک فوج کے بعد پولیس ایک ایسا ادارہ ہے جو دفاع وطن اور قانون کے عمل درآمد کے ساتھ قانون شکن عناصر سے آہنی ہاتھوں سے نمٹتا ہے۔ دفاع وطن اور جرائم پیشہ عناصر کی بیخ کُنی کے دوران سب سے زیادہ شہادتیں بھی پولیس کے افسروں و جوانوں نے حاصل کی ہیں جو اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ پولیس فورس پاکستان کا ایک اہم ادارہ ہے جس کے جوان چوبیس گھنٹے ڈیوٹی کر کے جرائم پیشہ عناصر سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ دفاع وطن کے لئے ہر دم کوشاں رہتے ہیں۔ تھانہ، کچہری، مساجد، امام بارگاہوں، گھرجا گھروّں، سرکاری دفاتر, بینک، حساس مقامات حتیٰ کہ ایسے بیسیوں مقامات پر سیکیورٹی ڈیوٹیاں بھی پولیس کے جوان احسن طریقے سے نبھا رہے ہیں۔ مہذب ممالک کے معاشرے میں پولیس فورس کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور عوام دورانِ ڈیوٹی اپنے وطن کے رکھوالوں کو انکی ہر سطح پر حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ وطن عزیز میں سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ پولیس فورس کو بنایا جاتا ہےحالانکہ ملکی تاریخ میں یہ واحد محکمہ ہے جو چوبیس گھنٹے یعنی رات دن ڈیوٹی دیتا ہے۔ پولیس کے جوان راتوں کو جاگ کر شاہراہوں، گلی کوچوں کی پٹرولنگ کرتے ہیں تو عوام سکون کی نیند سوتے ہیں مگر پھر بھی عوام اسی محکمے کی سب سے زیادہ بُرائیاں عیاں کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ گو پاکستان میں پولیس کا ڈیڑھ صدی پُرانا نظام چل رہا ہے جس میں 2002 میں صرف چند ایک اصلاحات کی گئی تھیں لیکن اُن اصلاحات کی بدولت بھی اس سسٹم میں بڑی تبدیلی نہ آ سکی۔ حالانکہ برطانیہ میں پولیس کا نظام پونے دو سو سال پُرانا ہے لیکن وہاں کا پولیس نظام دُنیا کا بہترین نظام ہے۔ برطانیہ کے پولیس سسٹم کے بہترین ہونے کی وجہ اُس میں کالی بھیڑوّں کا نہ ہونا ہے جبکہ پاکستان کے اس خوبصورت محکمے کو دیمک لگانے والی ہی کالی بھیڑیں ہیں جو اس محکمے کو بے حس، ظالم، جابر، اور نا انصافی کی علامت بنا دیتی ہیں۔ پولیس جیسے مُلک کے اہم سیکیورٹی ادارے میں جرائم پیشہ عناصر نہ صرف اپنے محکمے بلکہ ایمانداری اور جانفشانی سے کام کرنے والے اہلکاروں کی بدنامی کا بھی باعث بن رہے ہیں۔ جسکی مثال کچھ دن پہلے مانگا منڈی کے ایک مزدور ریڑی بان کی ویڈیو میں دیکھی گئی۔ قصّہ کچھ یوں تھا کہ مانگامنڈی کے علاقہ میں پولیس اہلکاروں کا دستہ شہری سے مفت خریداری کر رہا تھا جسکی ویڈیو شہری نے بنا کر سوشل میِڈیا پر ڈال دی اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے وائرل ہو گئی۔ اس ویڈیو کا معاملہ ڈی آئی جی آپریشنز لاہور احسن یونس کے ہاتھ میں آیا تو اُنہوں نے اس واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے فوراٙٙ شہری بشارت علی سے ملاقات کی۔ اس مُلاقات میں ایس ایس پی آپریشنز سمیت دیگر افسران بھی موجود تھے۔ اس مُلاقات میں ڈی آئی جی آپریشنز نے معذوری کے باجود شہری کی ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کے اقدام کو نہ صرف سراہا۔ بلکہ پولیس اہلکاروں کے اس رویے پر معذرت کے ساتھ شہری کو اپنی جیب سے معاوضہ بھی ادا کیا۔ اے ایس پی رائیونڈ سرکل ڈی آئی جی آپریشنز نے مرکزی کردار کانسٹیبل خرم شہزاد سمیت پانچ اہلکاروں کوچارج شیٹ جاری کرتے ہوئے معطل کر دیا۔ ترجمان آپریشنز ونگ کا کہنا تھا کہ ظلم سہنا بھی ظلم ہے، ہر کسی کو ظلم کے خلاف آواز اُٹھانی چاہئے کیونکہ اس وجہ سے کئی ایسے لوگ ظالم کے ظلم کا شکار نہیں بنیں گے۔ ڈی آئی جی آپریشنز نے شہری کو سرکاری گاڑی میں اُسکے گھر روانہ کیا۔ شہری نے بے انتہا عزت ملنے پر ڈی آئی جی آپریشنز کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔ یقیناٙٙ ایسے افسران انصاف کی بالا دستی، قانون کی حکمرانی، ظلم کی بیخ کُنی اور انسانوں کی بستیاں قانون و ضابطے اور قاعدے کے تابع کرنے میں اپنا کلیدی کردار ادا کر کے اس محکمے میں چھپی کالی بھیڑوں کو نہ صرف نکال رہے ہیں بلکہ اس محکمے کی عزت کو چار چاند بھی لگا رہے ہیں۔
بقلم: کاشف شہزاد