پاکستان کو روزمرّہ کے استعمال اور کھانے پینے کی اشیاء کی بڑھتی قیمتوں کے باعث اس وقت شدید مہنگائی کے چیلنج کا سامنا ہے۔ موجودہ صورتحال نے پسماندہ طبقے کی حالت کو مزید ابتر کر دیا ہے۔ اب تو مُلک قرضوں کی بھی تمام حدیں عبور کرتے ہوئے خطرناک سطح تک پہنچ چُکاہے۔ اسی طرح گردشی قرضوں کا حجم بڑھنے کا سنگین مسئلہ حکومت کو درپیش ہے۔ اسکے بعد تجارتی خسارہ کا ایک اور خطرہ حکومت کے سر پر لٹک رہا ہے جو کرنٹ اکاوّنٹ خسارے پر براہِ راست اور منفی اثر مرتب کرتا ہے۔ مرکزی بینک کی مانیٹری پالیسی سے بھی کوئی اُمید وابستہ نہیں ہے جبکہ آئی ایم ایف کے پروگرام کے حوالے سے غیر یقینی کی صورتحال پیدا ہے۔ اس تمام تر پسِ منظر کے پیشِ نظر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کے حالات کے حوالے سے کرنے کو اب کیا کچھ ہے؟ بین الاقوامی سطح پر تیل کی قیمتیں جو کورونا وباء کی وجہ سے ہونے والی معاشی بندش کے دوران کم ترین سطح پر پہنچ گئی تھیں اب عالمی معیشت کی بحالی کے ساتھ ہی بڑھنا شروع ہو گئیں ہیں اور اب یہ 85 ڈالر فی بیرل تک پہنچ چُکی ہیں۔ جس کے نتیجے میں پاکستان میں بھی تیل کی قیمتیں اب تک کی بُلند ترین سطح پر ہیں۔ گزشتہ تین سال میں تیل کی قیمتوں میں تقریباٙٙ 50 فیصد اور بجلی کی قیمتوں میں تقریباٙٙ 57 فیصد اضافہ ہو چُکا ہے جو اب تک اضافے کی سب سے بڑی شرح ہے۔ اس وقت بے روزگاری عروج پر ہے بہت سے گھرانے بحران کا شکار ہیں اور مہنگائی نے انہیں تقریباٙٙ غربت کی لکیر سے نیچے دھکیل دیا ہے یوں پاکستان میں متوسط طبقہ تیزی سے سُکڑ رہا ہے اور حکومت کو اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لئے مشکلات درپیش ہیں۔ اشیائے ضروریہ اور اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافے کے تمام ریکارڈ ٹوٹ چُکے ہیں جس سے معیشت کے ساتھ ساتھ عوام بھی شدید متاثر ہوئے ہیں۔ تمام قسم کی قیمتوں کے اشاریہ بشمول کنزیومر پرائس انڈیکس نے گزشتہ تین سالوں میں تمام ریکارڈ توڑ دئیے ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ مہنگائی نے 70 سالہ ریکارڈ توڑ دئیے ہیں۔ وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق گزشتہ تین سالوں میں چینی کی قیمت میں تقریباٙٙ 83 فیصد، آٹا 50 فیصد، چکن 60 فیصد، بیف 50 فیصد، اور خوردنی تیل کی قیمت میں تقریباٙٙ 133 فیصد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ ادویات کی قیمتیں بھی اتنی زیادہ ہیں کہ بہت سے پاکستانی انہیں خریدنے کی سکت نہیں رکھتے۔ یہی حال گندم، دال اور دودھ کی قیمتوں کا ہے جو اب عام پاکستانی کی پہنچ سے باہر ہے۔ پاکستان کے قرضوں کی صورتحال بھی ایک اور حساس معاملہ ہے جو اس جی ڈی پی کا تقریباٙٙ 95 فیصد ہے۔ یہ مالیاتی امور اور قرض کی حد بندی ایکٹ 2005 کی کی خلاف ورزی ہے جس کے تحت حکومت 60 فیصد قرض سے تجاوز نہیں کر سکتی۔ ہمارے سالانہ بجٹ کا ایک بڑا حصہ قرضوں کی ادائیگی کی مٙد میں صرف ہوتا ہے اور یہ رقم دفاعی اخراجات کے لئے مختص رقم سے زائد ہوتی ہے۔ مالی سال 22-2021 کے بجٹ میں قرض کی ادائیگی کے لئے مختص کل رقم 3.060 ارب روپے ہے جبکہ دفاعی بجٹ 1370 ارب روپے ہے۔ قرض کے انتظام میں ایک اور پریشان کن عنصر پاور سیکٹر میں گردشی قرضہ ہے جو اس وقت دو ہزار ارب روپے سے زائد ہے۔ برآمدات سے دو گنا زائد درآمدات کی صورتحال میں تجارتی خسارہ مُلک کے ان قلیل وسائل کو کھائے جا رہا ہے جو اب مہنگی درآمدات کو پورا کرنے کے لئے استعمال ہو رہے ہیں اور اس سے حالات مزید خراب ہو رہے ہیں۔ گزشتہ سال 25 بلین ڈالر کی اب تک کی بُلند ترین برآمدات اور 57 بلین ڈالر کی درآمدات نے 31 بلین ڈالر کا ایک بڑا تجارتی خلا پیدا کر دیا ہے۔ جسے صرف بیرونِ مُلک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی گئی ترسیلاتِ زر سے پورا کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس تمام تر صورتحال کے پیشِ نظر ضرورت اس آمر کی ہے کہ قابلِ برآمد اشیاء اور خدمات بالخصوص آئی ٹی کے ذریعے مُلک کی برآمدات کو بڑھایا جائے۔ چین پاکستان راہداری کے تحت خصوصی اقتصادی زونز کو بروقت مکمل کیا جائے تاکہ برآمدات کے تنوع اور برانڈنگ کو بڑھایا جا سکے۔ ان اقتصادی زونز کے ذریعے صنعتی کلسٹر بنانے کی ضرورت ہےاور نجی بجلی گھروں کی مکمل پیداواری صلاحیت کو بروّئے کار لاتے ہوئے بجلی کے زیادہ سے زیادہ استعمال سے فائدہ اُٹھایا جائے۔ اس کے علاوہ ہمیں ایسی مزید کمپنیوں کی ضرورت ہے جو ٹیکسٹائل کے متعلقہ مصنوعات تیار کر سکیں تاکہ برآمدات کی زیادہ سے زیادہ سطح حاصل کی جا سکے۔ مثالی مانیٹری اور مالیاتی لائحہ عمل کسی بھی مُلک میں مستحکم اقتصادی ترقی کو یقینی بناتا ہے، مانیٹری پالیسی اقدام کا موّثر استعمال سرمائے کو بڑھانے، افراطِ زر کو کنٹرول کرنے اور پالیسی ریٹ کے ذریعے قیمتوں کو مستحکم کرنے، صنعت کاروں اور برآمد کنندگان کے لئے فنانسگ یا ری فنانسگ کی سہولت کے حوالے سے اہم ہے۔ چونکہ اس وقت مہنگائی اور قیمتوں بالخصوص اشیائے خوردونوش کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کی فوری ضرورت ہے اس لئے قیمتوں کو مستحکم کرنے، برآمدات کو بڑھانے اور اقتصادی ترقی کو یقینی بنانے، سرمایہ کاری کے لئے سازگار ماحول پیدا کرنے کی غرض سے تمام مانیٹری پالیسی اقدامات پر موّثر عملدآمد یقینی بنایا جائے۔ اسی طرح قرضوں کے انتظام کا بہتر نظام قائم کرنے کے لئے حکومت کی جانب سے فوری طور پر پالیسی مداخلت کی ضرورت ہےتاکہ مُلکی معیشت کے لئے مزید مسائل پیدا نہ ہوں۔
بقلم: کاشف شہزاد