ہم زیادہ تر پاکستانی قومی زبان اردو بولتے اور انگریزی سیکھتے ہوئے پلے بڑھے ہیں۔ اکثر اردو میں بات کرنے کے بجائے، ہم میں سے بہت سے لوگ روزمرہ کی بات چیت کے دوران انگریزی میں بات کرنا پسند کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ جو لوگ اچھی طرح سے انگریزی نہیں بولتے ہیں وہ بھی ہجوم میں اپنی قبولیت کے لیے مناسب انگریزی کے الفاظ کا سہارا لیتے ہوئے ایک یا دو جملے بولنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ میں حیران اس بات پر ہوں کہ ناجانے یہ رجحان کہاں سے اور کب سے شروع ہوا۔ کچھ سال پہلے کی بات ہے کہ لمز یونیورسٹی کے کلچرل سوسائٹی طلباء کا ایک گروپ مشہور صوفی شاعر رومی کی سالگرہ کے سلسلے میں استنبول ترکی گیا۔ اس ٹرپ کی سیر کے دوران جب طلباء لنچ کے لیے ایک کیفے میں رکے تو ویٹر جلدی سے اُنکی طرف اُمڈ آیا ویٹر نے اُنکا آرڈر لیا، اور کھانے کے دوران اُنہی کی میز کے گرد منڈلاتا رہا۔ طلباء بار بار آنکھ چُرا کر اُسے دیکھتے رہے یہاں تک کہ وہ بل لے کر آ گیا، ویٹر نے بل اُنکی ٹیبل پر رکھ کر اُن سے پوچھا کہ آپ کہاں سے ہیں؟ سب نے یک زبان ہو کر جواب دیا، پاکستان سے، ویٹر نے حیرت سے دیکھا اور پھر پوچھا کہ کیا آپکی پرورش انگلینڈ میں ہوئی ہے۔ تو سب نے نفی میں جواب دیا اور بتایا کہ سب نے پاکستان میں ہی زندگی گزاری ہے، ویٹر واقعی اب پریشان نظر آ رہا تھا۔ آخرکار وہ بولا، تو پھر آپ لوگ پاکستانی زبان میں بات کیوں نہیں کرتے؟ ویٹر نے اُن سے کہا کہ ترکی، خاص طور پر استنبول ایک سیاحتی مقام ہے، جس نے دنیا بھر سے مختلف قومیتوں کے لاکھوں لوگوں کو راغب کیا ہے۔ تاہم جب ڈچ ہمارے مُلک کا دورہ کرنے آتے ہیں تو وہ ڈچ بولتے ہیں۔ جب فرانسیسی آتے تو فرانسیسی بولتے ہیں۔ چینی جب آتے تو چینی بولتے ہیں۔ اسی طرح ترکی میں ہر کوئی ترکی زبان بولتا تھا۔ اُس ویٹر نے طلباء سے کہا کہ انہیں اپنی زبان اور ثقافت پر بہت فخر ہے مگر وہ یہ سمجھنے میں ناکام رہا کہ کوئی شخص دیارِ غیر میں اپنے ملک کی زبان کیسے نہیں بولے گا اور اس کے بجائے ایک غیر ملکی زبان کا انتخاب کرے گا۔ وہاں اُس کیفے ٹیریا میں تقریباٙٙ دس کے قریب طلباء تھے، اور سب جواب سے محروم تھے۔ اُنہوں نے اس طرح کبھی نہیں سوچا تھا۔ یہ صرف ایک چیز تھی جسے معاشرے کی وجہ سے اٹھایا گیا کیونکہ ہمارے مُلک میں جب لوگ اردو میں بات کرتے ہیں، تو وہ اپنے جملوں میں بہت سارے انگریزی کے الفاظ بھی شامل کرتے ہیں آخر ایسا کیوں ہے؟ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں اپنی قومی زبان پر فخر نہیں ہے؟ مجھے یقین ہے کہ ہم سب جانتے ہیں کہ اردو زبان کتنی خوبصورت ہے، ہماری زبان کی شاعری، رعنائی اور تال غیر معمولی ہے۔ آج کی دنیا میں عالمگیریت کی بڑھتی ہوئی رفتار کی وجہ سے ایک عذر جو ذہن میں آتا ہے وہ ہے ‘مغربیت’ کا تصور۔ عالمگیریت ایک عنصر ہے،مگر اس کے باوجود جاپانی اب بھی جاپانی بولتے ہیں، تھائی اب بھی تھائی بولتے ہیں، یونانی اب بھی یونانی بولتے ہیں۔ چین، عالمی اقتصادی محاذ پر ایک پاور ہاؤس، اپنی بہت سی فیکٹریوں اور مغربی مصنوعات کی پیداوار کے باوجود اب بھی چینی بولتا ہے۔ درحقیقت جب چینی اولمپکس 2008 میں منعقد ہوئے تھے، تو چینی حکومت کو اپنے چینی عوام سے چند بنیادی انگریزی الفاظ سیکھنے کی درخواست کی تھی تاکہ دنیا کو خوش آمدید کہا جا سکے۔ میں اس بات کا احترام کرتا ہوں کہ یہ ممالک اپنی شناخت، ثقافت اور زبان کے احساس کو کس قدر اہمیت دیتے ہیں۔ مگر مجھے اس بات پر شدید شرمندگی ہے کہ ہم نادانستہ طور پر اپنے ملک کی کس تصویر کو پیش کر رہے ہیں۔ مجھے پاکستان اور اردو پر بہت فخر ہے، اس میں مسائل جو بھی ہوں، یہ اب بھی ہماری پہچان ہے۔ جاپان میں رہتے ہوئے یا بیرون ملک سفر کرتے وقت، میں اس بات کو یقینی بناتا ہوں کہ میں اپنے ساتھی پاکستانیوں سے بات کرنے کے لیے ہمیشہ اردو کا استعمال کروں۔ گھر میں بھی کوشش کرتا ہوں، حالانکہ یہ مشکل ہے ۔ میں یہ مضمون اس لیے لکھ رہا ہوں کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے معاشرے میں ایسے جاہلانہ رویوں کو توڑ دیں، اردو ایک خوبصورت اور دلکش زبان ہے اور ہم اپنے ملک کے لیے اس احترام کے مرہونِ منت ہیں جس کا وہ اپنی حقیقی جڑوں کو بولنے اور اس کی تصویر کشی کے ذریعے مستحق ہے.
بقلم: کاشف شہزاد