سردی آنے سے قبل ہی پنجاب میں سموگ کا خطرہ منڈلانے لگتا ہے۔ اینٹی سموگ ٹیموں نے پنجاب بھر میں آلودگی کے باعث بننے والی ملوں کو نوٹس جاری کر دئیے ہیں اور تعاون نہ کرنے والی فیکٹریوں کو آخر جنوری تک بند رکھنے کی وارننگ دے دی ہے۔ اس ایکشن کا بنیادی مقصد سموگ کے خطرے کو کم کرنا ہے۔ اس سلسلے میں محکمہ ماحولیات کی جانب سے پری سموگ اقدامات کرنے کے لئے عملے کو متحرک کر کے خصوصی ٹیمیں تشکیل دے دی ہیں۔ سموگ اصل میں دھویں اور دھند کے مرکب کو کہا جاتا ہے جب یہ اجزاء ملتے ہیں تو سموگ پیدا ہوتی ہے۔ اس دھویں میں کاربن مونو آکسائیڈ، نائٹروجن آکسائیڈ اور میتھین جیسے زہریلے مواد شامل ہوتے ہیں جس کی وجہ سے انسان کے جسم میں مختلف تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ اگر گلے میں خراش ہو یا ناک اور آنکھوں میں چھبن کا احساس ہو تو سمجھ لیں کہ یہ کیفیات سموگ کی ہیں، کیونکہ انسانی جسم پر سب سے پہلے یہی اثرات ظاہر ہوتے ہیں۔ سموگ چونکہ دھویں کا مرکب ہے اس لئے ایسے افراد جو سینے، پھیپھڑے یا سانس کی بیماری میں پہلے مبتلا ہوتے ہیں ان کے لئے سموگ جان لیوا بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ سموگ میں اضافہ ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں آلودگی پھیلانے کا سب سے بڑا ذریعہ قرار دیا جا رہا ہے جو کہ 45 فیصد کے قریب ہے۔ لاہور شہر میں آلودگی خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے جس کی وجہ سے سموگ میں شدت آئی ہے۔ اگر دُنیا کے ممالک کی اوسط عمر دیکھی جائے تو پاکستان کا نمبر 150 پر آتا ہے ہماری یہ اوسط عمر دُنیا کے بیشتر ممالک سے بیس پچس برس کم ہونے کی وجوہات میں سرِ فہرست بھی فضائی آلودگی ہی ہے۔ فضائی آلودگی کو ماپنے کا ایک اہم پیمانہ ائیر کوالٹی انڈکس AQI ہے، جس کے مطابق صفر سے پچاس تک کا ائیر کوالٹی انڈکس صحت مند ،51 سے 100 تک درمیانہ جبکہ 101 سے 150 تک کا خطرناک اور غیر صحتمند اور 151 سے 200 تک شدید غیر صحت مند اور اس سے زیادہ نہایت خطرناک سمجھا جاتا ہے۔
2020 کی ایک رپورٹ کے مطابق لاہور کا ائیر کوالٹی انڈیکس 193سے بھی تجاوز کر چکا ہے اور اسی وجہ سے لاہور دُنیا کے آلودہ ترین شہروں میں گیارہویں نمبر پر ہے۔ اگر گزشتہ تین برس کی اوسط کی بات کریں تو پاکستان دُنیا میں فضائی آلودگی کی وجہ سے دوسرے نمبر پر تھا ان اعداد و شمار کو بیان کرنے کا مقصد لوگوں کو اس مسئلے کی سنجیدگی سے روشناس کروانا تھا کیونکہ نہ جانے کیوں ہم بحثییت قوم اور ہمارے ادارے اس مسئلے کی حقیقت ماننے کو تیار نہیں۔ ہمارے ادارے اسے کبھی موسم اور کبھی کسانوں کی جانب سے کٹائی کے بعد فصلوں کو آگ لگانے کا انجام قرار دے کر اپنے عوام کی توجہ ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پاکستان میں فضائی آلودگی کے خاتمے کے لئے 2005 میں پاکستان کلین ائیر ایکشن پلان کا آغاز کیا گیا تھا لیکن اتنے برس گزرنے کے بعد بھی اس سلسلے میں کوئی عملی اقدامات نہیں کئے گئے۔ 2017 میں لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر ایک ایک سموگ کمیشن تشکیل دیا گیا جس نے تحقیقات اور مشاہدے کے بعد مئی 2018 میں اپنی سفارشات پیش کیں کہ کس طرح پاکستان میں سموگ اور آلودگی کو کم کیا جا سکتا ہے ان میں سے کسی سفارش پر آج تک عمل نہیں ہوا۔ کچھ عرصہ قبل اقوام متحدہ کے ادارے فوڈ اینڈ ایگری کلچر آرگنائزیشن نے ایک اپنے ایک پروگرامR-Smog میں تحقیق کر کے یہ رپورٹ شائع کی کہ پاکستان اور خاص طور پر پنجاب میں سموگ کی وجوہات میں ٹرانسپورٹ کا حصہ 43% صنعتوں کا 25%اور زراعت کا 20% ہے۔ یعنی سموگ نہ تو موسم کی تبدیلی کی کارستانی ہے اور نہ کوئی سازش اسکی وجوہات میں گاڑیوں کا دھواں، ناقص کوالٹی کا ایندھن، ٹرانسپورٹ کے کمزور انجن، صنعتی آلودگی، میونسپل اور صنعتی فضلے کا جلانا،خاص طور پر اینٹوں کے بھٹوں میں ربڑ ٹائروں اور موبل آئل کا جلایا جانا ہے۔ کوئلے اور تیل سے چلنے والے پلانٹ بھی اس سب میں اپنا اپنا حصہ ڈالتے ہیں یہ سب عوامل آلودگی کے پھیلاوّ میں مددگار ثابت ہو رہے ہیں اگر ان پر قابو پانےکے لئے سموگ پھیلنے سے قبل اقدامات نہ کئے گئے توعنقریب پاکستان کا ہر دوسرا فرد سانس کی بیماری میں مبتلا ہوتا جائے گا۔ درختوں کی افادیت اپنی جگہ جس سے انکار ممکن نہیں لیکن یہ بھی سائنسی حقیقت ہے کہ دُنیا کی فضا میں موجود آکسیجن کا تقریباٙٙ ستر فیصد حصہ درختوں سے نہیں بلکہ سمندروں میں موجود آبی پودوں سے آتا یعنی صرف درخت لگانے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا بلکہ آلودگی پیدا کرنے والے عوامل کو کنٹرول کرنا سب سے زیادہ اہم اور ضروری ہے جو منفرد حکمتِ عملی کے بغیر ممکن نہیں ہوگا۔ اس لئے حکومت کو چاہیے کہ کوئی ایسی حکمتِ عملی تیار کرئے جس سے لوگ کم سے کم گاڑی استعمال کریں تاکہ ایندھن کی بچت کے ساتھ ساتھ آلودگی پر بھی قابو پایا جا سکے۔
بقلم: کاشف شہزاد