قیمتی ہیروں کے ساتھ ناروا سلوک , حسِ مزاح میں میرے وطن پاکستان کی کھیتی بڑی زرخیز ہے مگر اس زرخیز زمین سے سونا اگلوانے میں زندگی اُچک لی جاتی ہے۔ ایسے بہت سے فنکار ہیں جنہوں نے تا دم محنت کی مگر اپنا لوہا نہ منوا سکے اپنے نام سے قوم کو روشناس نہ کروا سکے۔ مگر بعض نے حسِ مزاح کے میدان میں لوہا منوایا ہے وہ بھی ایسے کہ قوم کا فردِ واحد ان آرٹسٹوں کے نام و کردار اور بہترین اداکاری کا دیوانہ ہے۔ وہ ان سے ملاقات کے متمنی رہتے ہیں مگر انکے پاس وقت کی قلت کی وجہ سے وہ اپنے چاہنے والوں سے پیار مختلف ویڈیو پیغامات کے ذریعے پہنچاتے رہتے ہیں۔ انہی آرٹسٹوں میں عزیزم سلیم البیلا اور عزت مآب آغا ماجد ہیں یہ پاکستان کی زرخیز کھیتی کا سونا ہیں جنہوں نے جوانی میں محنت شروع کی اور قربِ بڑھاپے میں اپنی پہچان سے لوگوں کو روشناس کروایا۔ ان کے اندر صلاحیتیں اللّہ پاک نے کوٹ کوٹ کر رکھی ہیں۔ یقیناّّ ہر آرٹسٹ کی فن و مزاح کی دُنیا میں اپنی ایک الگ پہچان ہے مگر یہ لوگ آرٹسٹوں کے ماتھے کا جھومر ہیں جن سے ہر نیا آنے والا اور اُبھرنے والا آرٹسٹ اس وسیع دُنیا میں جینے کے گُر سے آشنا ہوتا ہے۔ میں اس حوالے سے بتاتا چلوں کہ فن اور فنکار کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے اگر کوئی فنکار لوگوں کے سامنے فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی پر سب کو خوش کرنے کے لئے بات کرتا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اُن اشخاص کی یا قوم کی تذلیل کر رہا ہوتا ہے، وہ صرف اپنے فن میں لاجوابی اور خوبصورت کلامی کو ملحوظ خاطر رکھ کر بات کرتا ہے مگر کچھ عقل سے آری اس چیز کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔
اس کے برعکس جو انسان سوچتا ہے اُس میں وہ گرتا چلا جاتا ہے کیونکہ سوچ میں ڈوبا انسان کبھی خوش مزاج نہیں ہوتا وہ اس لئے کہ سوچ ایک ایسا بے قابو ہتھیار ہے جو تباہ و برباد بھی کر سکتا ہے اور انسان کو بے حد طاقت دینے کی بھی صلاحیت رکھتا ہے۔ اگر سوچ کی اس طاقت کو جذبات میں آکر استعمال کیا جائے تو یہ انسان کو ختم کردیتی ہے اور اگر عقل و دانش سے کام میں لایا جائے تو یہ انسان کی زندگی کو خوبصورتی اور روشنی سے بھر دیتی ہے۔ لیکن حقیقت میں سوچ کچھ نہیں ہے اگر اسے طاقت اور فروغ نہ دیا جائے اور اگر اسے موقع پر ہی دفنا دیا جائے تو اسکی بدبو سے ہمیں تکلیف نہ ہو۔ گزشتہ دنوں ایسے ہی سوچ میں ڈوبے ایک شخص سے قابلِ تحریر شخصیات کا دُبئی میں سامنا ہوا۔ دونوں قابل احترام آرٹسٹ ایک پروگرام کے سلسلے میں دُبئی میں پرفارم کر رہے تھے اور لوگوں کے چہروں پر اپنے خوبصورت چُٹکلوں سے ہنسی بکھیر رہے تھے، اور وہ چُٹکلہ کسی کی دل آزاری یا تذلیل کرنے کے لئے نہیں کر رہے تھے کیونکہ فنکار کا کام فن کو اس طرح ظاہر کرنا ہوتا ہے کہ بات بھی لوگوں تک پہنچ جائے، لوگ مُسکرائیں بھی اور کسی کی تذلیل بھی نہ ہو۔ مگر اچانک ہال کے درمیان سے ایک ہمارا پاکستانی بھائی جو پختون کمیونٹی سے تھا اُن پر چلانے لگا حتیٰ کہ وہ ان پر دست و گریباں ہونے کو تھا مگر انتظامیہ نے اس روک لیا۔ ایک چھوٹے سے چُٹکلے پر قوم کے سرمایہ کے ساتھ اس طرح کا سلوک قابلِ مذمت ہے کیونکہ وہ اپنی تقریر میں برملا کہہ رہے تھے کہ ہمارا کسی کی دل آزاری مقصد نہیں بلکہ ہونٹوں پر تبسم بکھیرنا ہمارا شیوہ ہے جس کے لئے ایسی باتوں کا سہارا ہم لیتے ہیں۔ دونوں آرٹسٹ اس واقع کے باعث شدید اضطراب کا شکار ہیں کہ اگر لوگ انہیں سمجھ نہیں سکتے تو انہیں سُننے کیوں آتے ہیں۔ میں آخر میں اپنے دونوں ہیروّں کو مُلک و قوم کی خدمت کے لئے داد دیتا ہوں اور اُمید کرتا ہوں کہ وہ ایسے واقعات سے مایوس نہیں ہوں گے اور مُلک و قوم کی خدمت میں پہلے کی طرح دل و جاں سے خدمت کریں گے ۔
بقلم: کاشف شہزاد