مہنگائی میں اضافے نے پوری قوم کو درد ناک عذاب میں مبتلا کر دیا ہے۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ پٹرول کی قیمتیں بڑھنے پر فوری طور پر ہر شے مہنگی ہو جاتی ہے، سرکاری سطح پر ہر بار پٹرول کے نرخوں میں اضافے کے اثرات سے عام آدمی کو بچانے کے دعوے کئے جاتے ہیں۔ کیش سبسڈی پر غریبوں کو سستا پٹرول دینے کے منصوبے بھی بنائے جاتے ہیں مگر عملی طور پر اس کے بر عکس کیا جاتا ہے، سرکاری طور پر بجلی و گیس کے نرخ فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر بڑھا دئیے جاتے ہیں۔ یوں مہنگائی کا طوفان زیادہ تر غریبوں کو ہی متاثر کرتا ہے، بڑے صنعتکار، تاجر اور سرمایہ کار بھی اپنی پراڈکٹ کے نرخوں کو مہنگائی کے تناسب سے بڑھا کر مہنگائی کا زیادہ تر بوجھ غریبوں کو آسانی سے منتقل کر دیتے ہیں۔ حکمرانوں اور اشرافیہ کے مہنگائی سے متاثر نہ ہونے کے سبب عام آدمی کو ہی یہ دُکھ جھیلنا پڑتا ہے۔ موجودہ حکومت میں پٹرول کی قیمتیں کم کرنے کے اعلانات تو بہت کئے گئے مگر اُن پر عمل درآمد ناگزیر ثابت ہوا۔ پاکستان میں مہنگائی میں اضافے کا اہم ترین محرک پٹرول مہنگا کرنا ہے جس پر اپوزیشن بھی احتجاج کر رہی ہے مگر حکومت اس معاملے میں کچھ بھی سُننے اور سہنے کی حالت میں نہیں ہے کیونکہ اس وقت موجودہ حکومت میں بولڈ فیصلے لینے کا اچھا خاصہ فقدان نظر آ رہا ہے۔ ہمارے وزیرِ اعظم جو غیر ملکی قرض کے حصول سے خود کشی کو بہتر سمجھتے تھے اب تک غیر مُلکی قرض کے حصول کی دوڑ میں تمام سابق حکومتوں کو پیچھے چھوڑ چُکے ہیں۔ ریکارڈ قرضے لیکر کر اب سارا مالیاتی نظام آئی ایم ایف کی منشا کے مطابق بنا دیا ہے، جس کے سبب عوام پر مہنگائی کا عذاب نازل کیا جا چُکا ہے۔ بجلی، گیس، پانی اور پٹرول کے نرخ بڑھانے کے پیچھے بلاشبہ آئی ایم ایف کے مطالبے ہیں جس کو پورا کرنے کے سوا اب موجودہ حکومت کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔ مالیاتی خود مختاری کھو دینے والی ریاستیں بہت مشکل سے اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے قابل ہوتی ہیں۔ ایک طرف ہم سرمایہ داری کے ظالمانہ نظام کا حصہ ہیں اور دوسری طرف ہم نام نہاد خود مختاری کو ڈنڈورا پیٹ رہے ہیں۔ اب ہماری معیشت کو بیرونی دباوّسے نکالنا وقت کا تقاضا ہے ورنہ ہمارے پاس کچھ باقی نہ رہے گا۔ پاکستان کی معاشی بربادی کا سامان بھی عالمی مالیاتی اداروں کے قرض نے پیدا کیا ہے، ہر شے مہنگی کروانے کا مقصد انکے سود کی قسطوں کی بروقت ادائیگی ہے۔ ان حالات میں پھر عوامی انقلاب ہی برپا ہوا کرتے ہیں اس لئے تاحال حالات بہتر بنانے کی کچھ گنجائش ابھی موجود ہے ورنہ ان سب معاشی حماقتوں سے نجات کی صورت پیدا نہ کی گئی تو پھر پاکستان کے حالات بھی قازقستان سے مختلف نہ ہوں گے۔ یہ بتاتا چلوں کہ پچھلے دنوں قازقستان میں پٹرول کے نرخوں میں اضافے کے خلاف جاری شدید اور پُرتشدد عوامی احتجاج کے بعد صدر نے حکومت کو برطرف کر دیا ہے۔ قازق حکومت کی برطرفی کے باوجود مُلک کے حالات دگر گوں ہیں۔ ہنگامے ابھی تک جاری ہیں، گھیراوّ جلاوّ سے مُلک کے قیمتی اثاثوں کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔ اب قازقستان کی نئی کابینہ پٹرول سستا کرنے کا فیصلہ کر کے بھی ہنگامے نہیں روک سکی اور اب تک تقریباٙٙ 13 پولیس اہلکاروں سمیت متعدد افراد جان کی بازی ہار چُکے ہیں جبکہ معاشی نقصان کا تو تخمینہ ہی نہیں لگایا جا سکا۔ پاکستانی عوام کو بھی اس مقام تک نہ لایا جائے جہاں سے انکو واپس لانے کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے ۔ بپھرے عوام کے پُرتشدد مظاہرے روکنا حکومت کے بس کی بات نہ ہوگی۔ عوام کو ریلیف دینے کے لئے عالمی مالیاتی اداروں کی کڑی شرائط پر ہوشرباء مہنگائی کے پھیلنے کے عمل کو روکنے کی موّثر معاشی حکمتِ عملی ہی حکمرانوں کا اقتدار اور قوم کو غربت کی ذلت سے بچا سکتی ہے۔
بقلم: کاشف شہزاد