جاپان ایک ایسی سرزمین ہے جہاں ریاست صرف کتابوں میں ہی نہیں حقیقت میں بھی ماں کی طرح برتاوّ کرتی ہے، جہاں ہر شخص کے لئے ترقی کے برابر مواقع موجود ہیں، جہاں ریاست روٹی، کپڑا اور مکان کے ساتھ ساتھ پانی، بجلی، گیس ، آمد و رفت کے ذرائع، صحت، تعلیم اور شہریوں کے تحفظ کی اپنی ذمہ داری بہترین طریقے سے ادا کر رہی ہے۔ یہ ایسی سر زمین ہے جہاں اپنے شہریوں کے ساتھ ساتھ غیر ملکیوں کے بھی پوری طرح بنیادی حقوق ہیں، جہاں معاشی طور تباہ حال غیر ملکیوں کو چند برسوں میں کروڑ پتی اور پھر ارب پتی بننے کے مواقع حاصل ہیں، جہاں بیٹیاں اور بہنیں رات کے دو بجے بھی اکیلے گھر آ سکتی ہیں، کوئی ان کی طرف میلی نگاہ ڈالنے کی جرات نہیں کر سکتا، جہاں انصاف اتنا طاقتور کہ مظلوم ظالم سے زیادہ طاقتور نظر آئے۔ جی ہاں یہ کوئی افسانہ نہیں ہے بلکہ میرے جاپان میں گزارے گے سترہ سال کی داستان ہے جو حقیقت پر مبنی ہے، یہاں میں نے سڑک چھاپ پاکستانیوں کو انکی محنت اور جاپانی سسٹم میں موجود ترقی کے مواقع سے کروڑ پتی اور ارب پتی بنتے دیکھا ہے۔ معاشی طور پر مفلس افراد کا کروڑوں روپے کا علاج سرکاری طور پر مفت میں ہوتے دیکھا ہے۔ میں نے یہاں ریاست کو معزور افراد کے لئے رہائش اور کھانے پینے کے لئے ماہانہ وظیفہ فراہم کرتے دیکھا ہے، یہاں بے روزگار صرف اسی شخص کو دیکھا ہے جو کام ہی نہ کرنا چاہتا ہو۔ یہاں میں نے بہترین خاندانی نظام بھی دیکھا ہے، جہاں جوان بیٹا اپنا شاندار کیریئر اپنے بوڑھے ماں باپ کی دیکھ بھال کے لئے قربان کر کے خوشی محسوس کرتا ہے۔ جاپان میں گزارے گیے سترہ ہ سالوں میں میں نے بہترین مذہبی آزادی بھی دیکھی ہے۔ مُسلمانوں کے لئے اس وقت جاپان میں سو سے زائد مساجد موجود د ہیں جہاں پانچ وقت کی نماز ادا کی جاتی ہے اور جاپانی پولیس کو اکثر ان نمازیوں کی حفاظت کے لئے مسجد کے باہر کھڑے دیکھا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ مذہبی آزادی کے احترام میں جاپانی حکومت نے مُسلمانوں کی آخری رسومات کے لئے جاپان بھر میں چھ سے زائد قبرستان قائم کرنے کی اجازت بھی دے رکھی ہے۔ جہاں مسلمان اپنی میتوں کو احترام کے ساتھ دفنا سکتے ہیں، حال ہی میں میت جلانے کے جو واقعات پیش آئے اس میں جاپانی حکومت کا کوئی قصور نہیں بلکہ یہ بھی ایک قانون ہے کہ میت کو ورثا کے حوالے کیا جاتا ہے اب ورثا جس طرح چاہیں مرنے والے کی آخری رسومات ادا کریں۔ اس وقت جاپان میں سو سے زائد مسلم ممالک کے دو لاکھ سے زائد مسلمان آباد ہیں مگر ان سب کی حکومتیں چاہیں تو سرکاری طور پر جاپانی حکومت سے درخواست کر سکتی ہیں کہ مسلمان کی میت اسلامی تنظیموں کے حوالے کرنے کا قانون بنا دیا جائے تاکہ مرحوم کی آخری رسومات اسلامی طریقہ کار کے تحت کی جا سکیں۔ اُمید ہے کہ جلد ہی مسلمان کمیونٹی جاپانی حکومت کو اس حوالے سے بھی اپنا نقطہ نظر سمجھانے میں کامیاب ہو جائے گی اور جاپانی حکومت ہمدردی کے تحت مسلمانوں کی اس درخواست کو قبول بھی کر لے گی۔ حقیقت یہی ہے کہ دُنیا بھر سے کوئی بھی شخص جاپان میں کچھ عرصہ گزارے تو پھر دُنیا کے کسی بھی مُلک میں اسکا دل نہیں لگتا۔ سیاحت کے لئے آنے والوں پر جاپان کا ایسا تاثر بیٹھتا ہے کہ ہر شخص دوبارہ جاپان آنے کی خواہش کا اظہار کرتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے جاپان پاکستان کا بہترین دوست مُلک ہے اور ہمیشہ جاپان نے پاکستان کو صحت، تعلیم، معاشی اور دفاعی شعبوں میں بھاری امداد فراہم کی ہے۔ اس امداد سے سکول، اسپتال، بچوں کے لئے خوبصورت پارک، بجلی کے منصوبے، زراعت کے منصوبے، ٹیلی ویژن کے آغاز کے دور میں جاپان نے ہی پاکستان ٹیلی ویژن کو بھاری فنی و تکنیکی امداد فراہم کی تھی۔ تاہم آج کے سیاسی و تجارتی بین الاقوامی بلاک کے نتیجے میں پاکستان کا جھکاوّ چین کی جانب بڑھا تو جاپان کا جھکاوّ بھارت کی جانب ہو گیا، اس کے باوجود جاپان پاکستان کو ہر شعبے میں امداد کی فراہمی کو یقینی بنا رہا ہے۔ اس وقت بیس ہزار سے زائد پاکستانی جاپان میں روزگار کے سلسلے میں مقیم ہیں جبکہ تقریباٙٙ دس ہزار پاکستانیوں نے جاپانی خواتین سے شادیاں کر رکھی ہیں۔ میری اللّہ پاک سے دعا ہے کہ مُستقبل قریب میں پاکستان اور جاپان کے تعلقات میں گرمجوشی پیدا ہو تا کہ زیادہ سے زیادہ پاکستانی جاپان آ سکیں اور حکومتِ پاکستان بھی ریاست مدینہ کے اصول جاپان سے سیکھ سکیں۔
بقلم: کاشف شہزاد