سنیٹر اعظم نذیر تاڑر صاحب جو پاکستان بار کونسل کے سابق صدر رہ چُکے ہیں سے ایک واقع بیان کیا جاتا ہے کہ وہ بتاتے ہیں کہ 15 سال قبل میرا جونئیر ایک نوجوان وکیل میرے ساتھ کورٹ کے برآمدے میں چہل قدمی کر رہا تھا اور میں سائل سے کسی کیس پر گفتگو میں محو تھا، آدھے گھنٹے بعد وہ نوجوان میرے پاس دوڑتا ہوا آیا کہ گاوّں میں اُس کے کزن نے ایک قتل کر دیا ہے اور اُسے خدشہ ہے کہ کہیں اُس کیس میں اُس کا نام نہ آ جائے اُس پر میں نے اُسے کہا کہ نہیں کوئی بات نہیں آپ کا نام کیوں آئے گا جب آپ اُدھر تھے ہی نہیں؟ آپ تو یہاں ہو آپ کو ڈر کیسا؟ وہ دو گھنٹے بعد پھر آیا اور کہا کہ مقدمے میں میرا نام شامل کر دیا گیا ہے۔ سینٹر صاحب بتاتے ہیں کہ پھر میں نے کورٹ احاطے کے کیمرے سے سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کیں، جس عدالت میں وہ وقوعہ کے روز پیش ہوا تھا اُس کی حاضری شیٹ نکلوائی، میں نے عدالت میں اپنی اور دو اور لوگوں کی گواہی بھی دی کہ یہ نوجوان قتل کے وقت وہاں موجود نہیں تھا لیکن پھر بھی اُسے ضمانت نہ ملی اور وہ جوان وکیل 3 سال جیل میں رہا۔ 3 سال بعد جب وہ رہا ہوا تو اُس نے مجھے فون کیا کہ سر میں آج کے بعد سبزی کی ریڑھی لگا لوں گا مگر وکالت نہیں کروں گا کیوں کہ جب عدالت ایک وکیل کو انصاف نہیں دے سکتی وہ کسی اور کو کیا دے گی۔
اب بات کرتے ہیں مُلک میں ٹیکس چوری اور اُس پر عدالتی سسٹم کی، ہمارے مُلک کے حکمران ہمیشہ ٹیکس چوری سے بات شروع کریں گے اور اسی پر ختم بھی، مثال کے طور پر کسی بھی صاحب اقتدار سے پوچھ لیں کہ آپ اپنے دور میں مُلک کے حالات کیوں نہ ٹھیک کر پائے، تو وہ یہی جواب دیں گے کہ اس مُلک میں ٹیکس چوری بہت زیادہ ہے اس لئے مُلک کی آمدن کم اور اخراجات زیادہ ہیں جس وجہ سے مسائل حل نہیں ہو پاتے۔ جیسے موجودہ وزیرِ اعظم عمران خان صاحب فرماتے رہتے ہیں کہ اس مُلک کی آبادی 22 کروڑ جبکہ ٹیکس دینے والوں کی تعداد صرف 15 لاکھ ہے۔ ایف بی آر کی بات کریں تو وہ کہے گا، کہ اس وقت پاکستان میں عدالتوں کا اسٹے آرڈر یعنی حُکم امتناعی کا سسٹم عروج پر ہے جس کی وجہ سے ایف بی آر کھربوں روپے ٹیکس کولیکشن کرنے سے قاصر ہیں۔ اگر اپنی عوام کی بات کریں تو انکا جواز یہ ہے کہ ہم عوام اس وقت 56
قسم کے مختلف ٹیکسز سے حکومت کو براہِ راست نہ سہی مگر بالواسطہ ٹیکس سے ضرور نواز رہے ہیں پھر بھی مُلک میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی نظر نہیں آ رہی۔ ادھر مُلک پر جو قرضہ پچھلے دس برس میں 60 ارب ڈالر تھا وہ اب 150 ارب ڈالر سے بھی تجاوز کر چُکا ہے، جو ڈالر دس سال پہلے 60 یا 70 روپے میں ملتا تھا آج وہ 170 سے 180 روپے کے برابر ہے، مُلکی معیشت ہر گزرتے دن کے ساتھ سنبھلنے کی بجائے زوال کی دلدل میں دھنستی جا رہی ہے۔ اگر ہم ٹیکس چوری کی بات کریں تو ہمارے تمام امراء، تجارتی کمپنیاں اور ادارہ جات ٹیکس یا محصول کی ادائیگی سے ہمیشہ بچنے کی دوڑ میں لگے رہتے ہیں، وہ اپنی خرید و فروخت اور آمدنی کو حد درجہ محدود انداز میں بیان کرتے ہیں جس وجہ سے ان کا ادا کردہ ٹیکس ان کے شایانِ شان ہی نہیں بلکہ بہت ہی کم ہوتا ہے، جو کہ ایک مالیاتی جُرم ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق بلکہ اقوامِ متحدہ کے ادارہ معاشی اور سماجی کمیشن کے مطابق پاکستان میں سالانہ 540 ارب روپے کی ٹیکس چوری ہوتی ہے۔ کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ پاکستان میں ٹیکس چوری سے معیشت کو سالانہ کھربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے جبکہ پاکستان کا ٹیکسوں کا نظام پہلے ہی مساوی نہیں۔ رپورٹ کے مطابق با اثر طبقات کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لئے ایف بی آر کوئی اقدام کرتا بھی ہے تو مقدمہ بازی کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہےجو اسٹے آرڈر کی بنیاد پر کئی کئی برس چلتا رہتا ہے۔ یہ مقدمات جس سُست رفتاری کے ساتھ سُنے جاتے ہیں، اس کے نتیجے میں انہیں انجام تک پہنچانے اور قانون شکن افراد کو احتساب کے شکنجے میں لانے کے لئے کئی برس لگ سکتے ہیں، تب تک خاکم بدہن مُلک کا دیوالیہ نکل جائے گا۔
اصل بات یہ ہے کہ ہمارا آوے کا آوا ہی بگڑا ہے ہم کس کے سامنے اپنی مُلکی حالت کی کتاب کھولیں، کیونکہ جن شخصیات نے اس حوالے سے قوانین بنانے ہیں، وہ اس غلط کام میں ملوث نظر آتے ہیں۔ اگر یہ لوگ مُلک سے مخلص ہوتے تو ان فرسودہ قوانین کو تبدیل کرنے میں اپنا کردار ضرور ادا کرتے۔ اگر ہمارے مُلک میں مناسب احتساب نہیں ہو رہا تو اس میں ہمارے نظامِ انصاف میں موجود کمزوریاں اور ابہام ہیں، لہذا قوانین تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ مُلک کا نظام چل سکے۔ اس نظام کو بہتر بنانے کے لئے سب ادروں جن میں حکومت، پارلیمنٹ، ایف بی آر اور میڈیا شامل ہیں کو اپنا حصہ ڈالنا ہوگا، اور سب سے اہم اس قوم کے منتخب نمائندوّں اور حکومت و مملکت کے کلیدی مناصب پر متمکن شخصیات کو ٹیکس کلچر کے حوالے سے اپنی ذات کو مثالی بنا کر پیش کرنا ہوگا تب ہی معاشرہ انکے قدم بہ قدم ہم آہنگ ہوکر ترقی پائے گا۔
بقلم: کاشف شہزاد