جنگِ عظیم دوئم کے بعد ہمیشہ جنگ ویت نام، افغانستان، اور عراق جیسے ترقی پذیر اور کمزور مُلکوں کی سر زمین پر لڑی جاتی رہی ہیں لیکن اس دفعہ دونوں جانب عالمی طاقتیں خونخوار بھیڑیوں کی طرح غراتی ہوئی میدان میں اُتری ہیں۔ یورپ کی وہ سر زمین جس نے کئی صدیاں جنگ کی ہولناکیاں دیکھی ہیں ایک دفعہ پھر میدانِ جنگ بنے ہوئ ہے۔ گزشتہ صدی میں ہونے والی جنگِ عظیم اوّل اور جنگِ عظیم دوئم کا ایندھن یورپی ممالک ہی بنے تھے۔ امریکہ جس نے دنیا میں کروڑوں انسانوں کو قتل اور لاکھوں گھروں اور عمارتوں کو تباہ و برباد کرنے کے بعد خود سات سمندر پار بیٹھے انہیں ممالک کو حفاظت اور معاشی تحفظ کے نام پر نیٹو اور آئ ایم ایف کی زنجیروں میں ایسے جکڑا کہ آج اِن مُلکوں میں پچھتر سالوں کی سرمایہ کاری سے منافع کمانے کا وقت آ گیا ہے۔ یورپ کے یہ ممالک خوب جانتے ہیں کہ اس اس جنگ سے منافع کون کمائے گا۔ وہ اسلحہ ساز فیکٹریاں اور کرائے کے فوجی فراہم کرنے والی کمپنیاں جن کا کاروبار سرد چلا آ رہا ہے منافع کمانے کو بے تاب بیٹھی ہیں کیونکہ جب امریکہ ذلت آمیز شکست کے بعد افغانستان سے نکلا تو وہ پانچ اسلحہ ساز کمپنیاں جنہوں نے ایک اندازے کے مطابق ڈیڑھ ہزار ارب ڈالر کمائے تھےنئے محاذ جنگ کے خواب دیکھنے لگیں اور اُنکا خواب اچانک حقیقت بن کر جمعرات کو منظرِ عام پر آ گیا کیونکہ روسی فوج نے یوکرائن پر حملہ کر دیا۔ یورپ کے دبانے پر ہونے والی اس نئی جنگ نے دُنیا کے لئے نئے خطرات پیدا کر دئیے ہیں اور کچھ مبصرین تو یہ خدشہ بھی ظاہر کر رہے ہیں کہ جلد ہی اس بحران کا پُر امن حل نہ نکلا تو معاملہ تیسری جنگِ عظیم کی طرف بھی جا سکتا ہے۔ اگر خدانخواستہ ایسا ہوا تو اسکا مطلب دُنیا میں بہت بڑی تباہی ہو گی جس سے شائد ہی دُنیا کا کوئی انسان محفوظ رہ سکے کیونکہ جب جنگ ایک بار شروع ہو جاتی ہے تو پھر وہ کسی کے اختیار میں نہیں رہتی۔ پہلی اور دوسری جنگِ عظیم کا آغاز بھی ایسی چھوٹی جنگوں سے ہی ہوا تھا جو چند ماہ کے اندر پوری دُنیا میں پھیل گئیں۔ یوکرین اور روس کی جنگ پر بات کرنے سے پہلے اس میں پاکستان کے لئے کیا سبق ہے اس پر پہلے بات کر لی جائے تو اچھا ہے۔ سوویت یونین کے بکھرنے کے بعد جب یوکرین کو بھی دیگر ملکوں کی طرح آزادی ملی تو وہ ایٹمی طاقت تھا اس کے پاس جوہری ہتھیار اور میزائل بھی تھے لیکن سال 1994 میں یوکرین نے روس امریکہ اور برطانیہ کے معاہدہ بداپسٹ کے تحت ایٹمی ہتھیاروں سے دستبرداری اختیار کر لی۔ اس معاہدے میں تینوں ملکوں نے یوکرین کو سیکورٹی کی ضمانت دی تھی۔ یوکرینی قیادت سے سب سے بڑی یہی غلطی ہوئی، وہ تاریخ کا یہ سبق بھول گئی کہ کوئی دوسری قوم آپ کو تحفظ نہیں دے سکتی، قوموں کو اپنا دفاع اپنے زورِ بازو سے ہی کرنا ہوتا ہے۔ آج یوکرین کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے یہ اس غلطی کا خمیازہ ہے جو اس نے معاہدہ بداپسٹ میں کی تھی۔ یوکرین کو سیکورٹی کی ضمانت جن تین مُلکوں نے دی تھی، آج انہی میں سے ایک نے اِس پر حملہ کر دیا ہے۔ جبکہ دوسری جانب امریکہ اور برطانیہ ہیں جو یوکرین کو صرف دلاسے جبکہ روس سے مذاکرات کی کوشش کر رہے ہیں۔ پاکستان کو بھی ایٹمی ہتھیاروں سے دستبردار کرانے کے لئے اسی طرح کی ضمانتیں اور پیکج دینے کی بہت کوشش کی گئی اور اب بھی کی جاتی ہے لیکن رب العالمین کا شکر ہے ہماری قیادت نے ایسی کوئی غلطی نہیں کی ورنہ ہم بھی دشمن کے لئے نرم چارہ بن جاتے۔
اگر بات کریں یوکرین اور روس کی فوج کی تو ان کے درمیان کوئی مقابلہ نہیں یہی وجہ ہے کہ حملے کے چند گھنٹے کے اندر ہی روس نے یوکرین کا فضائی کنٹرول حاصل کر لیا، اس کے فضائی اڈوں اور دفاعی نظام کو نشانہ بنا کر ناکارہ کر دیا۔ دوسری طرف یوکرین میں داخل ہونے والے روسی زمینی دستوں کو بھی زیادہ مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ماریوپول اور اڈیسہ میں روسی فوج داخل ہو چکی ہے جبکہ دارالحکومت کیف کے ملٹری کمانڈ سینٹرز پر بم گرائے جا رہے ہیں۔ یوکرین عالمی برادری اور نیٹو سے مدد مانگتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ روس کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لئے عالمی برادری کو فوری حرکت میں آنا ہوگا، ساتھ ساتھ یوکرینی قیادت بار بار یورپی ممالک کو خبردار کر رہی ہے کہ آج اسکی مدد نہ کی گئی تو کل پورا یورپ روس کے رحم و کرم پر ہوگا تاہم دوسری طرف امریکہ اور نیٹو اتحاد کے بیان سے واضح ہو چکا ہے کہ مغربی طاقتیں یوکرین کو بچانے کے لئے عملی مداخلت کا خطرہ مول لینے کے لئے تیار نہیں کیونکہ ابھی وہ خود اپنی کھال بچانے کے چکروں میں ہیں۔ یورپ اور امریکہ کے اقدامات کا سارا زور روس پر پابندیاں بڑھانا ہے، پابندیوں پر اگرچہ روس کی معیشت پر اثرات پڑیں گے لیکن یورپ کی بھی ڈھیروں مجبوریاں روس کے مرہونِ منت ہیں اس لئے نیٹو، یورپ اور امریکہ روس کے خلاف محاذ سرائی کرنے سے پہلے ہر پہلو کو دیکھیں گے کیونکہ یورپ کی یہ سب زمین بہت سی لاشوں کے بعد دوبارہ آباد ہوئی ہے جسے اب وہ اُجھڑتا نہیں دیکھنا چاہتے۔
بقلم: کاشف شہزاد