ولادیمیر زیلنسکی ٹیلی ویژن پر بطور اداکار اپنے فن کا مظاہرہ کیا کرتے تھے، انہوں نے اپنی اداکاری کی دُنیا میں بے شمار کردار ادا کئے مگر جو کردار لوگوں کے دلوں میں گھر کر گیا وہ کامیڈی سیریز "سرونٹ آف دی پیپل” میں بطور اُستاد کا کردار تھا۔ اس کردار میں وہ اپنی قوم میں بدعنوانی، کرپشن اور ظلم کے خلاف جذباتی انداز میں آواز اٹھاتے ہوئے اُجاگر ہوئے اور گھر گھر انکا چرچا شروع ہو گیا۔ انکے اس تاریخی کردار اور اداکاری کی ویڈیو اس قدر یوکرین میں وائرل ہو گئی کہ ہر کسی کو ان میں اپنا لیڈر نظر آنے لگا اور اس بات کا انہیں قطعاٙٙ علم نہ تھا کہ قسمت ان کی محنت پر مہربان ہو چُکی ہے۔ ولادیمیر زیلنسکی بغیر انتخابی مہم چلائے اپنے اس کردار کی بدولت جو انہوں نے "سرونٹ آف دی پیپل” میں ادا کیا تھا یوکرین کے صدر منتخب ہو گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ اپنے ملک کے ایک بہادر اور نڈر لیڈر کے طور پر سامنے آ گئے۔
ولادیمیر زیلنسکی یوکرین کے شہر کریویرخ میں ایک یہودی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے کیئو کی نیشنل اکنامک یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی لیکن ان کا شوق انھیں اداکاری کی طرف کھینچ کر لے گیا مگر انکی اداکاری کے جوہر انہیں صدارت تک منتخب کروانے میں کامیاب ہو گئے۔ یہ بات سچ ہے کہ سیاست میں داخل ہونے والے تفریحی افراد کو بجا طور پر شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، کیونکہ وہ اپنے کردار کے سب سے خطرناک حصے یعنی جذبات کی ہیرا پھیری کے ماہر ہوتے ہیں۔ اور یوکرین کے احوال یہ تھے کہ کوئی بھی شخص جو اس مُلک کے اقتدار میں آتا، شکوک و شبہات پیدا کر دیتا کیونکہ یوکرین میں مفروضہ یہ تھا کہ یہاں جو بھی اقتدارای قیادت ہو گی وہ کسی اور ہی طاقت کی زبان بولے گی۔ اس حقیقت سے پردہ تب اُٹھا جب روس نواز صدر وکٹر یانوکووچ نے روس کی ایماء پر یورپین یونین میں داخلے کے معاہدوّں پر دستخط سے اپنے اقتدار میں انکار کر دیا، انہیں دنوں میں سی آئی اے کو یوکرین سے روس نواز صدر کو اقتدار سے اُتروانے کا موقع مل گیا۔ کیونکہ سی آئی کے پے رول پر موجود سیاسی لیڈروں نے اس وقت جلوسوں اور دھرنوں کا رُخ وکٹر یانوکووچ کے خلاف موڑ دیا اور فوراٙٙ آئین میں ترمیم کرنے کا مطالبہ رکھ دیا اور ساتھ ہی صدر کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ پاس کر دیا جس سے وکٹر یانوکووچ اقتدار سے دستبردار ہو کر روس کی ضم ریاست کریمیا چلے گئے۔ اسی دور میں ولادیمیر زیلنسکی اپنے عروج پر پہنچ گئے اور اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ ولادیمیر زیلنسکی نے بھی سیاست میں اپنے حقیقی کیریئر سے بہت سی ٹھوکریں کھائیں تھیں،یوکرین میں پنپ شدہ شکوک و شبہات نے انہیں ہر وقت گھیرے رکھا ہوتا تھا۔ کبھی کبھی تو زیلنسکی کو ایسا لگتا کہ جیسے وہ ایک مجبور حکمران کے طور پر حکومت کر رہے ہیں کہ وہ اپنی پوری توانائی صرف کر کے یوکرینی عوام تک بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنا چاہ رہے ہیں مگر عوام انہیں محض صدارتی کردار کے طور پر ہی دیکھ رہی ہے۔ مگر زیلنسکی نے ہمت نہیں ہاری، اسکی یوکرین اور یوکرینی عوام کے لئے انتھک محنت، کوشش اور کاوش نے اسے یوکرینی عوام کا عظیم لیڈر بنا دیا۔ ولادیمیر زیلنسکی نے اپنی عوام سے کئے گئے وعدوّں پر اسقدر گرمجوشی سے عملدرآمد کیا کہ عوام کو اسے ہر لحاظ سے تسلیم کرنا پڑا، ان وعدوّں میں سب سے پہلا وعدہ "ڈنباس” مسئلے کا حل تھا جہاں 2014 سے لڑائی جاری تھی اور 14 ہزار کے قریب لوگ مارے جا چکے تھے، زیلنسکی نے ہمتِ مرداں دکھا کر اس مسئلے کو حل کیا اور اپنی عوام کو سُکھ کا چین لینے کا موقع فراہم کیا۔
کل، ولادیمیر زیلنسکی نے یوروپی رہنماؤں کی ایک ویڈیو کانفرنس میں شرکت کی اور ان کو بتایا کہ وہ شاید اسے دوبارہ کبھی نہیں دیکھیں گے کیونکہ پوری دنیا دیکھ سکتی ہے کہ اس کی پھانسی کا امکان بہت قریب ہے۔ اُنہوں نے کہا مجھے یقین ہے کہ ولادیمیر پوٹن وطن سے محبت کے جُرم میں اس کے قتل کا حکم دے دیں گے۔ انہیں یقین ہے کہ میرے ساتھ بھی ویسے ہی کیا جائے گا جیسے روسی رہنماوٰں نے اپنے بہت سے بہادر ناقدین اور دشمنوں کے ساتھ کیا مگر اُنہیں اسکی پرواہ نہیں۔ ولادیمیر زیلنسکی کی قسمت اتنی واضح ہے کہ واشنگٹن نے اسے کیف سے نکالنے کی پیشکش کی، تاکہ وہ جلاوطنی میں حکومت بنا سکیں۔ لیکن زیلنسکی نے حفاظت کی زندگی سے مُلک کی خاطر موت کو ترجیح دی اور کہا کہ واشنگٹن مجھے مزاحمت کے لیے مزید ہتھیار فراہم کرے "لڑائی یہاں میرے یوکرین میں ہے، مجھے گولہ بارود چاہیے، سواری نہیں۔ یہ الفاظ یوکرینی صدر کو ہمیشہ اپنی قوم میں رہتی دُنیا تک زندہ و اَمررکھیں گے، کیونکہ زندہ قومیں ہمیشہ اپنے لیڈروں کو یاد رکھتی ہیں۔
بقلم: کاشف شہزاد