ایک زمانے میں اپنا حُسن ظن یہ تھا کہ سیاستدان پاکستان کے معامالات کو کسی بھی دوسرے شخص سے بہتر سمجھتے تھے مگر تجربے نے یہ ثابت کیا ہے کہ ہمارے سیاستدان اب صرف اپنے معاملات کو بہتر سمجھتے ہیں، مُلک قوم یا ترقی ان کے ایجنڈے پر اپنے مفادات کے بعد آتے ہیں۔ انہی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے موجودہ اپوزیشن پچھلے کچھ عرصے سے بنی بنائی حکومت کو گرانے کے لئے تحریک عدم اعتماد کے لئے کوششیں کر رہی ہے۔ کیا اپوزیشن اس میں بازی لے سکتی ہے؟ آئیے کچھ اس پر نظر ڈالتے ہیں۔ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل چورانوے کے مطابق قومی اسمبلی کے بیس فیصد اراکان یعنی انہتر اراکین منتخب وزیرِ اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد لا سکتے ہیں اور یہ قرار داد سپیکر کے سامنے پیش ہونے کے تین یا سات دن کے بعد ووٹنگ کا حق رکھتی ہے، مگر یہ عدم اعتماد کی قرار داد ان دنوں میں پیش نہیں کی جا سکتی جب قومی اسمبلی کا بجٹ اجلاس ہو رہا ہو۔ اس کے ساتھ اگر قومی اسمبلی کے اراکین کی اکثریت یعنی ایک سو بہتر اراکین اس قرار داد کے حق میں ووٹ ڈال دیتے ہیں تو وزیرِ اعظم اپنے عہدے سے فارغ ہو جائیں گئے۔ گویا دستور کے مطابق اپوزیشن کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں کہ وہ انہتر اراکین کے ساتھ عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد تو پیش کر سکتی ہے لیکن اس کی منظوری کے لئے کم از کم اسے ایک سو بہتر اراکین کی حمایت حاصل کرنی ہے۔ کچھ عرصہ قبل جب وزیرِ اعظم عمران خان کو اعتماد کا ووٹ لینے کی ضرورت پیش آئی تھی تو اس وقت انہیں اراکین کی حمایت حاصل تھی۔ ان اراکین میں مسلم لیگ ق، ایم کیو ایم، جی ڈی اے اور بلوچستان عوامی پارٹی کے لوگ بھی شامل تھے جن کی مدد سے پی ٹی آئی نے اپنی حکومت بنائی تھی۔ مطلب یہ کہ اگر عمران خان کے اتحادی اپنی بائیس نشستوں کے ساتھ الگ ہو کر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے ساتھ مل جاتے ہیں تو خان صاحب کی حکومت تحریکِ عدم اعتماد پیش کئے بغیر ختم ہو جائے گی لیکن اگر یہ اتحادی ان کے ساتھ ہی رہتے ہیں تو پھر یہ تحریک پیش ہو بھی جائے تو چند دنوں کے شور شرابے کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن بڑے اعتماد سے کہتی ہیں کہ ان کے پاس کم از کم بائیس اراکین ایسے ہیں حو منتخب تو تحریکِ انصاف کے ٹکٹ پر ہوئے ہیں لیکن اب وہ اپوزیشن کے ساتھ ملے ہیں۔ تاثر یہ دیا جا رہا ہے کہ وقت آنے پر یہ لوگ خان صاحب کے خلاف کھڑے ہوں گئے۔ اگر ایسا ہو بھی جائے تو بھی پاکستان کی سیاست میں یہ کوئی نئی بات نہ ہوگی البتہ یہ مشکل ہے کہ لوٹا بن جانے والے اراکان خان صاحب کے خلاف عدم اعتماد میں اپوزیشن کا ساتھ دے سکیں کیونکہ یہ خفیہ ووٹنگ نہیں ہو گی بلکہ کھڑے ہو کر بتانا ہوگا کہ فلاں بن فلاں عمران خان کے ساتھ ہے۔ ایسے لوگوں کو خیر اخلاقیات کا کیا پاس ہو گا لیکن اس صورت میں آئین پاکستان کا آرٹیکل تریسٹھ حرکت میں آئے گا جس کے مطابق کسی جماعت کا رُکن قومی اسمبلی میں بجٹ کی منظوری، آئینی ترمیم کی منظوری وزیرِ اعظم یا وزیرِ اعلیٰ پر اعتماد یا عدم اعتماد کے وقت اپنا ووٹ پارٹی کی مرضی کے خلاف استعمال کرتا ہے یا غیر حاضر ہوتا ہے تو وہ نااہل ہو جائے گا۔ آئین کی یہ شق اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے واضح کرنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن اس میں وہ ابہام باقی ہے جس کا فائدہ موجودہ وزیرِ اعظم کو ہی ہوگا۔ مثال کے طور پر اگر آج ہی ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کر دی جاتی ہے تو اسپیکر قومی اسمبلی آئندہ تین سے سات روز کے اندر اس پر ایوان کی رائے لیں گئے، تحریک انصاف کی ٹکٹ پر ہونے والا ایم این اے اگر اس موقع پر وزیرِ اعظم کے خلاف ووٹ دیتا ہے تو اسپیکر اس شق کے مطابق اس کا ووٹ مسترد کر سکتا ہے کیونکہ یہ ووٹ پارٹی کی مرضی کے خلاف استعمال ہو رہا ہوگا کیونکہ جب آئین میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ ایسے موقع پر پارٹی کی ہدایت کے خلاف ووٹ نہیں دینا تو عدم اعتماد پر رائے شماری کے موقع ہر پریزائیڈنگ آفیسر کہلوانے والا سپیکر اپنے سامنے ایک ایسے شخص کو ووٹ کیوں ڈالنے دے گا جس کو ڈالنے کا وہ مجاذ ہی نہیں۔ گویا بائیس لوگ ہوں یا بیس وہ چاہیں بھی تو تحریک انصاف سے ٹوٹ کر اپوزیشن کی کوئی مدد نہیں کر سکتے۔ تحریکِ عدم اعتماد کی صورت میں چونکہ مطلوبہ اراکین کی تعداد پوری کرنا اپوزیشن کے ذمے ہوگا تو تحریکِ انصاف سے ٹوٹے ہوئے لوگ بھی بظاہر اپوزیشن کی کوئی مدد نہیں کر پائیں گئے۔ اس لئے اپوزیشن کو پہلے تحریکِ انصاف کے سپیکر کو ہٹا کر اپنا بندہ لانا ہوگا جو انکا ٹوٹا ووٹ بھی قبول کر لے۔ میرے خیال میں تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہو یا نہ ہو یہ اپنے مفادات کی حفاظت کے سوا کچھ بھی نہیں کیونکہ یہ پرواہ کسی کو بھی نہیں کہ اس سے پیدا ہونے والا عدم استحکام مُلک کے لئے کتنا نقصان دے ہوگا۔
بقلم: کاشف شہزاد