گزشتہ دنوں دُنیا بھر کے ممالک کی پاسپورٹ رینکنگ کرنے والے عالمی ادارے "ہینلے” نے اپنا 2022 کا پاسپورٹ انڈیکس جاری کیا جس کے مطابق پاکستانی پاسپورٹ دُنیا کا چوتھا کمزور ترین پاسپورٹ قرار پایا۔ گزشتہ سال 2021 کی رینکنگ میں پاکستانی پاسپورٹ پانچویں نمبر پر تھا جو مزید گراوٹ کا شکار ہو کر چوتھے نمبر پر آ چکا ہے۔ بے دقعت پاسپورٹس کی فہرست میں پاکستان کے نیچے شام، افغانستان، اور عراق جیسے خانہ جنگی کا شکار ممالک ہیں۔ ہینلے پاسپورٹ انڈیکس کی عالمی درجہ بندی میں اس سال جاپان اور سنگاپور کے پاسپورٹ ایک مرتبہ پھر دُنیا کے طاقت ور ترین پاسپورٹ قرار پائے۔ ان دونوں ممالک کے شہری 192 ممالک میں بغیر ویزہ یا آن آرائیول ویزہ سفر کر سکتے ہیں۔ جبکہ دوسرے نمبر پر جرمنی اور جنوبی کوریا قرار پائے جن کے شہری191 ممالک کا بغیر ویزہ یا آن آرائیول سفر کر سکتے ہیں۔ تیسرے نمبر پر فن لینڈ، اٹلی، لگسمبرگ اور اسپین ہیں ان چاروں ممالک کے شہری 190 ممالک کا بغیر ویزہ یا آن آرائیول سفر کر سکتے ہیں۔ جب کہ امریکہ، برطانیہ اور یورپ کے دیگر ممالک مشترکہ طور پر چوتھے نمبر پر آتے ہیں اور ان ممالک کے شہری189 ممالک کا ویزہ فری یا ویزہ آن آرائیول سفر کر سکتے ہیں۔ انڈیکس میں پاکستانی پاسپورٹ کو افریقہ کے پسماندہ ترین مُلک صومالیہ سے بھی نیچے کمزور ترین ممالک کی فہرست میں دیکھ کر ہر محبِ وطن کا دل رنجیدہ ہے۔ اس فہرست میں ہمارا ملک افغانستان، عراق، شام، یمن، فلسطین، نیپال، لیبیا، شمالی کوریا، سوڈان، لبنان، اور ایران کی صف میں کھڑا نظر آیا۔ جہاں کے شہری صرف 32 ممالک میں ویزہ فری یا آن آرائیول ویزہ کی سہولت حاصل کر سکتے ہیں۔ جبکہ اس انڈیکس میں بھارت اور بنگلہ دیش کے پاسپورٹ کا مقام پاکستان سے کئی گنا بُلند ہے۔ یاد رہے کہ 70 کی دہائی تک پاکستانی پاسپورٹ کا شمار دُنیا کے کے مضبوط ترین پاسپورٹس میں ہوتا تھا۔ پاکستانی شہری برطانیہ سمیت بیشتر یورپی ممالک بغیر ویزہ سفر کر سکتے تھے۔ یہی وہ دور تھا کہ جب ہزاروں پاکستانی نوجوان امریکہ میں جا بسے، اُس وقت کسی بھی ترقی یافتہ ملک کے ائیر پورٹس پر امیگریشن حکام گرین پاسپورٹ کو حقارت کی نظر سے نہیں دیکھتے تھے اور نہ ہی پاکستانی شہریوں کو تلاشی کے نام پر ہتک آمیز سلسلے کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ دیکھا جائے تو قومی پاسپورٹ کی بے توقیری کے اصل ذمہ دار ہم خود ہیں۔ پاکستانی پاسپورٹ کی ساکھ کو سب سے زیادہ نقصان سوویت افغان جنگ کے بعد پہنچا۔ جب لاکھوں افغان پناہ گزینوں اور پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم بنگلہ دیشی و برمی باشندوں نے رشوت کے عوض پاکستانی پاسپورٹس حاصل کئے۔ کراچی سمیت دیگر بڑے شہروں میں پاسپورٹ آفسز کے باہر ایجنٹوں کا ایک جمِ غفیر ہوا کرتا تھا۔ صرف چند ہزار روپوں کے عوض ارجنٹ پاسپورٹ بنوانا اُن دنوں کوئی مسئلہ نہیں ہوا کرتا تھا۔ یہی لوگ جب منشیات لے جاتے ہوئے پکڑے جاتے یا بیرونِ مُلک جرائم میں ملوث ہوتے تو انہیں پاکستانیوں کے ہی کھاتے میں ڈالا جاتا۔ یہ ابتدا تھی پاکستانی پاسپورٹ کے بدنام ہونے کی۔ اگر اسی وقت معاملے کی سنگینی بھانپ کر اسکا سدِباب کر لیا جاتا تو بُلندیوں سے پستی کی جانب کا سفر روکا جا سکتا تھا۔ رہی سہی کسر غیر قانونی طور پر بیرونِ مُلک جانے والے پاکستانیوں نے نکال دی جن کے غیر ممالک پکڑے جانے پر پاکستانی پاسپورٹ اور پاکستانیوں کی جگ ہنسائی ہوتی رہی۔ ان حالات کے پیشِ نظر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عالمی انڈیکس میں پاکستانی پاسپورٹ کی رینکنگ میں گراوٹ آتی گئی جس سے پاکستانیوں کو ویزوں کے حصول کے لئے مزید سختیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اب تو یہ امر بھی باعث افسوس ہے کہ سری لنکا، فلپائن، بنگلہ دیش اور تھائی لینڈ جیسے ممالک کے ویزے کے حصول کے لئے بھی پاکستانیوں کو ایک ایک ماہ تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ان حالات کے پیشِ نظر پاکستان کا امیر طبقہ بعض ایسے ممالک میں رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کر رہا ہے جہاں ان کو مستقل رہائش اور پاسپورٹ کا حصول ممکن ہے۔ ان ممالک میں آج کل ترکی سرِ فہرست ہے۔ حیران کُن بات یہ یے کہ جس دن میڈیا میں ‘ہینلے پاسپورٹ انڈیکس’ کی حالیہ رپورٹ منظر عام پر آئی اسی روز وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری کا یہ بیان سامنے آیا کہ حکومت نے ترکی اور دوسرے یورپی ممالک کی طرز پر غیر ملکیوں کو مستقل رہائش کی سہولت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایسے غیر ملکی جو پاکستان میں پراپرٹی کے شعبے میں ایک لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری کریں گے وہ پاکستان میں مستقل قیام اور شہریت کے بھی حق دار ہوں گے۔ قوم کو یہ بھی یاد ہے کہ ہمارے وزیرِ اعظم عمران خان ماضی میں اپنی تقاریر میں اکثر اس بات کا عہد کرتے تھے کہ وہ برسر اقتدار آ کر پاکستانی پاسپورٹ کا وقار بحال کرائیں گے، اُنکی حکومت کو تین سال گزر گئے لیکن اس دور میں جہاں پاکستان نے کرپشن کی عالمی رینکنگ میں ترقی کی ہے وہیں پاکستانی پاسپورٹ کی تنزلی اور بے توقیری میں بھی اضافہ ہوتا گیا جو کہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔ میرے خیال میں موجودہ حکومت کو پاکستانی پاسپورٹ کو باقاعدہ معیار دلانے کے لئے کچھ ایسے اقدامات اُٹھانے اور قوانین بنانے کی ضرورت ہے جس سے مکمل طور پر دو نمبری کا نظام ختم ہو سکے تاکہ ہر سال ‘ہینلے’ انڈیکس کے بتائے گئے پاسپورٹ انڈیکیٹرز میں بہتری عمل میں لائی جا سکے کیونکہ یہ سب جانتے ہیں گرین پاسپورٹ ایک سفری کاغذ ہی نہیں بلکہ یہ پوری دُنیا میں ہماری پہچان ہے۔
بقلم: کاشف شہزاد