چیلنجز کا سامنا کرنا ہمیشہ سے وزیرِ عظم عمران خان کی زندگی کا حصہ رہا ہے۔ ایک طرف انکی کامیابیاں مخالفین کے نشانے پر رہی ہیں جبکہ دوسری طرف انکی قوتِ ارادی، صلاحیت، دیانتداری، خلوصِ نیت اور تاریخ کے دھارے کو بدلنے کے پختہ عزم کی بھرپور مخالفت کی جارہی ہے۔ جب وزیرِ اعظم نے طاقتور مافیا کے ناجائز ذرائع سے حاصل کردہ دولت کے بارے میں سوال اُٹھائے تو سیاسی ماحول کو مخدوش کر دیا گیا اور وزیرِ اعظم کو اقتدار سے الگ کرنے کے لئے شیطانی قوتوں نے آپس میں گٹھ جوڑ کیا اور اراکین پارلیمنٹ کے ضمیر خریدنے کا بھیانک کھیل شروع کر دیا۔ اس وقت وزیرِ اعظم کا مقابلہ صرف سیاسی منظر نامے پر نمودار چہروّں سے نہیں بلکہ پسِ پردہ قوتوں کے ساتھ بھی ہے جن کا مقصد اپنے مقامی ٹاوّٹوں کو بھاری وسائل مہیا کر کے وزیرِ اعظم کو ہر صورت اقتدار سے الگ کرنا ہے۔
اس شیطانی کھیل کے پسِ منظر کرداروں اور اپنی پاور شو کے لئے چند دن پہلے پاکستان تحریکِ انصاف نے اسلام آباد میں اپنی بہترین سیاسی طاقت کا مظاہرہ بھی کیا جس میں بلا مبالغہ میں ناچیز سمیت لاکھوں افراد اکٹھے ہوئے تھے۔ اس سیاسی پاور شو کا بنیادی مقصد یہی تھا کہ ایک تو برسر اقتدار جماعت اپوزیشن کی طرف سے لائی جانے والی عدم اعتماد تحریک کا زور کم کر سکے اور دوسرا اس تحریک کے پسِ منظر میں فعال بین الاقوامی طاقتوں کو بھی ایک سخت پیغام دینا مقصود تھا جو پاکستان کی بدلنے والی خارجہ پالیسی کے تناظر میں سازشوں میں مصروف ہیں۔
اگرچہ پاکستان میں اپوزیشن جماعتوں کے کارکن ان باتوں کو ماننے پر تیار نہیں اور وہ اپنی جماعتوں کی ہر بات کو جذباتی انداز میں ہی سچ سمجھتے ہیں لیکن عام کارکنوں سے ہٹ کر پڑھے لکھے اور با شعور پاکستانی یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ ماضی میں ذوالفقار علی بھٹو کو بھی ایسی ہی سازشوں کے ذریعے نشانِ عبرت بنایا گیا تھا اور اب لگتا ہے کہ وزیرِ اعظم کو منصبِ اقتدار سے محروم کرنا ہی انکا اصل مقصد ہے۔ گزشتہ جلسہ میں ہمارے وزیرِ اعظم نے بھٹو صاحب کی طرح دو تین دفعہ طاغوتی خط کو لہرایا اور باور کروایا کہ اس میں دشمن کی چال اپنے کے چہروّں کے پیچھے چھپی ہے۔ کہا جا رہا تھا کہ یہ خط، اسرائیل، امریکہ اور بھارت کی مشترکہ چالاکی ہے، جسکا وزیرِ اعظم نے بے باکی اور جراّت سے کھل کر اظہار کیا تھا۔
اس خط کے تناظر میں اپوزیشن جس قدر مستحکم ہو گئی تھی لگ یہی رہا تھا کہ آج پاکستان کا تاریخی وزیرِ اعظم ووٹنگ کے زریعے اقتدار سے اُتر جائے گا مگر اپوزیشن اس بات سے بے خبر تھی کہ اُنہوں نے 22 سال کی مسلسل جدوجہد کے بات اس نہج کو حاصل کیا ہے تاکہ وہ پاکستان کے لئے کچھ ایسا کر سکیں کہ انکا نام زندہ رہے۔ وزیرِ اعظم عمران خان نے مملکتِ پاکستان کے صدر عارف علوی سے ووٹنگ سے پہلے ہی اسمبلیاں تحلیل کرنے کی درخواست پیش جس پر صدرِ مملکت نے فوراٙٙ دستخط کر دئیے۔ دوسری جانب ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم خان سوری نے یہ کہہ کر عدم اعتماد کی درخواست کو ریجیکٹ کر دیا کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 5 کے تحت کسی طرح بھی یہ نہیں کیا جا سکتا کہ اپوزیشن بیرونی طاقتوں کے ساتھ مل کر موجودہ حکومت کو گرا دے، اس لئے یہ ایوان اس درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کاروائی برخاست کرتا ہے۔ یہ ایسی پلاننگ تھی جو اپوزیشن کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی۔ اب اپوزیشن نے پارلیمنٹ میں دھرنا دے رکھا ہے اور سُپریم کورٹ سے ڈپٹی اسپیکر کے اس فیصلے کے خلاف درخواست جمع کروا دی ہے کہ جب تک سپریم کورٹ اس چیز کا فیصلہ نہیں کرتا کہ ڈپٹی اسپیکر کا یہ قدم کالعدم ہے اور ان پر آرٹیکل 6 نافذ نہیں ہو گا تب تک یہ دھرنا یہی رہے گا۔
اب یہ سُپریم کورٹ پر منحصر ہے کہ جتنی جلدی ہو سکے مُلکی معاملات کو ٹریک پر لانے کے لئے اقدامات کرئے اور جلد سے جلد سماعت کا سلسلہ شروع کرئے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔
بقلم: کاشف شہزاد