ہم سب اس میں برابر کے شریک ہیں کہ ہم ہر بار ایسے ہی لوگوں کو ایوان میں اپنا نمائندہ منتخب کر کے بھیجتے ہیں جن کے قول و عمل میں بے پناہ تضادات ہوتے ہیں۔ پھر ایسے منظر بھی سامنے آتے ہیں کہ کوئی وزیر کابینہ کے اجلاس میں سورة اخلاص بھول جاتا ہے، کوئی اعلیٰ عہدے پر فائز شخص پوری بسم اللّٰہ صحیح نہیں پڑھ پاتا اور کسی کی زبان پھسل جاتی ہے۔ اس ضمن میں ایک نوجوان کی ایک وائرل ویڈیو کا آنکھوں سے گزر ہوا، جس میں وہ بلدیاتی انتخابات میں منتخب ہونے والے اُمیدواروں سے دعائے قنوت، کلمہ طیبہ اور ایسی کچھ بنیادی دعائیں سُن رہا ہے جو انہیں بالکل نہیں آتی تھیں۔ انہیں معلوم ہی نہیں تھا کہ دعائے قنوت کیا ہے اور کلمہ جو مسلمان ہونے کے لئے بنیادی شرط ہے وہ صحیح طریقے سے کیسے پڑھنا ہے۔ آئین پاکستان کے مطابق اسمبلیوں کے اُمیدواروں کی اہلیت کے باب میں انکا صادق و امین ہونا ضروری ہے، لیکن 1977 سے لیکر اب تک جو وزرائے اعظم آتے رہے وہ کسی نہ کسی حوالہ سے متنازعہ رہے ہیں، اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ عوام اسمبلیوں میں بھجوائے جانے والے لوگوں کو اندھا دھند منتخب کرتی ہے جن کی اکثریت وڈیروّں، پیروّں ، بڑے زمینداروں، صنعتکاروں یا کسی نہ کسی حوالے سے معروف ہوتی ہے۔ اس میں ذات پات اور دھاندلی سے حاصل کئے گئے ووٹوں کا اہم دخل ہوتا ہے۔
ہمارے مُلک کی سیاست و جمہوریت میں بھیڑ چال، شخصیت پرستی اور اندھی تقلید بہت طرح سرایت کر چُکی ہے جس کے ااثرات اُوپر سے نیچے تک بدترین کرپشن اور دوسری بے شمار ایسی سیاسی و شخصی غلطیوں کی صورت میں سامنے آتے ہیں جن کی وجہ سے مُلکی معیشت، قومی تشخص، ملی استحکام، داخلہ اور خارجہ معاملات منفی صورت اختیار کر جاتے ہیں۔
پاکستان کے محبِ وطن حلقوں کے مطابق پاکستان کا وزیرِ اعظم وہ شخص ہو جو صحیح معنوں میں صادق و آمین ہو، اس کا ماضی بے داغ ہو، اسکی زبان شائستہ ہو اور وہ قوم کا صحیح درد رکھتا ہو۔ نظریہ پاکستان، قوم اور قومی تشخص کے فروغ کے لئے مخلصانہ جذبہ اسکے دل میں موجزن ہو۔ وزارتِ عظمی کے دوران قومی خزانے کی ایک ایک پائی کوامانت سمجھ کر خرچ کرنے اور عوامی مسائل کے دیر پا حل کی اہلیت رکھتا ہو۔جب وہ اپنی آئینی مدت پوری کرنے کے بعد عوام میں جائے تو اس کے دامن پر بد عنوانی، مُلکی مفادات کے منافی سرگرمیوں اور فرائض منصبی کی ادائیگی میں غفلت کے دھبے نہ ہوں۔ وہ قوم سے کئے گے وعدوّں سے پھرنے والا نہ ہو۔ وہ مُلکی وقار پر کسی قسم کی سودے بازی نہ کرئے۔
قصّہ مختصر قیامِ پاکستان کے تقریباٙٙ 75 سال بعد اس مُلک کو ایسا وزیرِ اعظم نصیب ہوا جسکا خواب میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں شاعر مشرق ڈاکٹر محمد اقبال اور بانیِ پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح نے دیکھا ہوگا۔ جو نظریہ پاکستان سے ہم آہنگ ہونے کے ساتھ ساتھ شعائر اسلامی کو اچھی طرح سمجھتا، جانتا اور بوجھتا ہے۔ جو اقتدار کی جنگ میں مُلکی سالمیت کو بیرونی ٹھیس سے بچانے میں ہر دم کوشاں ہے۔ جسے لوگ اسلامی ممالک اپنا لیڈر مان چُکے ہیں اور جس کے ہاتھوں امریکہ جیسی سُپر پاور پسپا ہو کر اسلام فوبیا کا دن منانے پر مجبور ہو چکی ہے۔ ایسا لیڈر پاکستان کی قسمت میں ایک ہی دفعہ آیا ہے جو دوسروں کی طرح نسل در نسل منتقلی کا ہر گز مجاور نہیں جو مُلک کی ہمیشہ بہتری کے لئے اپنا آپ نچھاور کرنے میں پیش پیش ہے۔ وہ اسلامی دُنیا کا لیڈر عمران خان ہے جس کے ایک سیاسی وار نے اپوزیشن کے ہر فرد کے دل و دماغ میں غم و غصہ بھر دیا ہے اور اقتدار کو اُن سے کوسوں میل دور کر دیا ہے۔
اب قوم نے سیاست دانوں کی سابقہ اور حالیہ ریشہ دانیوں، اقتدار کی رسہ کشی اور ایک دوسرے پر بہتان بازی کے اتنے تماشید سیکھ لئے ہیں جو کسی آمر کی حکومت میں بھی نظر نہیں آئے۔ موجودہ سیاسی منظر نامے کے بعد آئندہ الیکشن میں ووٹر کا مزاج اور رُجحان یقیناٙٙ بدلے گا اور اگر ووٹر کا مزاج نہ بدلا تو ووٹ کو وہ ذلت ملے گی جسے تاریخ میں سیاہ حروف سے لکھا جائے گا۔
بقلم: کاشف شہزاد