کیسا عجیب آدمی تھا، خود بھی آزاد رہنا پسند کرتا تھا اور لوگوں کو بھی آزاد رہنے کے لئے ورغلاتا رہتا تھا کہ آزاد ہو جاوّ کیونکہ آزادی میں ہی انسان کی بقا ہے۔ گوری چمڑی والوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنا کبھی اُس نے پسند نہیں کیا۔ ہمیشہ کہتا تھا کہ میرے مُلک کے لوگوں کی جان بھی اُس قدر ہی قیمتی ہے جس قدر تمہارے لوگوں کی جان قیمتی ہے۔ وہ ہمیشہ ضد کرتا ہے، اپنی بات پر بُرجمان رہتا ہے، صاف کہتا تھا کہ ہم تمہارے غلام نہیں ہیں کہ جو تم کہو ہم وہ کر لیں۔ عجیب آدمی تھا جو کہتا تھا کہ اپنے مُلک کے ہوائی اڈے کسی قیمت پر نہیں دوں گا، تمہارے مُلک کی لڑائی ہر گز نہیں لڑوّں گا، اگر ڈرون میرے مُلک کے اندر بغیر اجازت داخل ہوا تو اُسی وقت مار گراوّں گا۔ امریکہ جیسی سُپر پاور کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتا تھا کہ تمہاری پالیسی غلط ہے اور اسی کے گھر میں بیٹھ کر جس نے کہا تھا Absolutely Not.
امریکہ کو یہی معلوم تھا کہ یہاں جو بھی آیا ہے وہ پرچیوں کے سہارے ہی آیا ہے مگر یہ عجیب آدمی ہے جو وہاں جاکر گرجتا ہے اور چلا چلا کر کہتا ہے کہ اللّٰہ پاک نے اگر تمہیں پر دئیے ہیں تو زمین پر کیوں رینگتے ہو۔ ایسی ایسی باتیں نوجوانوں کو بتاتا تھا کہ جو آج تک کسی لیڈر کو زخمت نہیں ہوئی کہنے کی۔ وہ کہتا تھا کہ ہم آزاد قوم و ملت ہے، ہمارے مُلک کا اپنا نظام ہے ہم جس سے چاہیں ملیں، جس سے چاہیں نہ ملیں، یہ ہمارے مُلک کے فیصلے ہیں انہیں ہم خود کریں گے۔ ایسا لیڈر تھا جو غلاموں کو آزادی کے خواب دکھاتا تھا، ہمشہ اپنے مُلک کے لباس میں رہنا پسند کرتا تھا، اپنے کلچر اور اپنے مذہب پر ہمیشہ فخر کرتا تھا۔ اتنا حوصلہ مند بندہ اتنا کچھ ہونے کے باوجود صرف مُسکرا رہا تھا۔ اتحادی چھوڑ گئے، اپنے ساتھی چھوڑ گئے مگر پھر بھی اقتداری کے پجاریوں کے ساتھ تبلِ جنگ بجائے رکھتا ہے، وطن کی عزت کی بات کرتا ہے، حوصلے کی بات کرتا ہے، قومیت کی بات کرتا ہے، سر اُٹھا کر چلنے کی بات کرتا ہے۔ وہ زمینی من مانی پاور کے ساتھ ٹکر لے بیٹھا تھا، کس کے لئے؟ صرف اپنے مُلکِ پاکستان کی خاطر۔
یہ ایسا عجیب لیڈر تھا جس نے سالوں پہلے اپنے گھر بار کو وطن پر قربان کیا۔ بچوں اور فیملی سے جدائی ڈالی صرف مُلک میں نئی کوشش کی خاطر، نئے انقلاب کی خاطر، نئے قوم کی خاطر اور قوم کی خودداری کی خاطر۔ ایسا عجیب لیڈر تھا جس نے اپنی ساری زندگی اس قوم کو زندہ کرنے پر لگا دی، اس قوم کے بچوں کو اپنا بچہ سمجھا کیونکہ وہ یہی سمجھتا ہے کہ میرا اب اس قوم کے سوا کوئی نہیں ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو اس دُنیا سے گئے، بے نظیر چلی گئی، اسکے بعد زرداری اور بلاول آگئے، اس کے ساتھ ساتھ نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ شہباز اور مریم بی بی پردہ اسکرین پر نمودار ہو چُکے ہیں۔ یہ ایسے قوم کے مداری ہیں جو اس قوم کو بھکاری کہلوانے اور بھکاری بنانے میں صفِ اوّل کے سر کردہ ہیں۔ اس بات کے پسِ پردہ یہ لیڈر کہتا تھا کہ اپنی اس قوم کو دوبارہ ان لُٹیروّں کے حوالے نہیں کروں گا جو اس قوم کی خون پسینے کی کمائی ہوا میں بھی اُڑائے اور اسے مزید بھکاری بنائے۔ جاتے جاتے یہ عجیب لیڈر صرف یہ سُننا چاہتا تھا کہ خان صاحب آپ نے اپنے مُلک کو بچانے کی پوری کوشش کی مگر مُلکی ہوس کے پجاریوں کے آگے آپکی ہر کوشش ناکام ہو گئی۔ اور یوں یہ قوم آج شرمندہ ہے جس نے ایک خوددار، بے باک اور نایاب لیڈر اپنی سر پرستی کے لئے کھو دیا۔ مگر میرا ایمان و یقین ہے کہ اللّه پاک ایک مرتبہ پھر آپکو موقع دے گا اور وہ موقع قوم کے سُدھرنے کا آخری موقع ہوگا۔
پاکستان زندہ آباد، عجیب لیڈر پائندہ آباد
بقلم: کاشف شہزاد