ہفتہ کی شب تحریکِ عدم اعتماد کی ووٹنگ سے پہلے کے آخری دو گھنٹوں کے بارے جس طرح بی بی سی اُردو نے ایک غلط سٹوری شائع کی وہ نہایت خطرناک اور افسوس ناک ہے۔ پچھلے چند سالوں میں پاکستان میں جو ففتھ جنریشن وار چلائی جا رہی ہے اسکا مقصد پاک فوج اور عوام کو آمنے سامنے کھڑا کرنا تھا۔ میں بطور کالم نویس اس ففتھ جنریش وار کے خلاف پروگراموں اور تحریروں میں سینہ سُپر رہا ہوں لیکن موجودہ حالات میں یہ ففتھ جنریشن کی یہ بے ہودہ کوشش کامیاب ہوتی دکھائ دے رہی ہے جو نہایت خطرناک رُجحان ہے۔ سابق وزیرِ اعظم عمران خان اور انکے وزرا کے پاک آرمی اور اسکے سپہ سالاروں کے خلاف کسی بھی منفی پراپیگنڈہ اور بیانات سے سختی سے منع کرنے کے باوجود چند شر پسند عناصر پاک فوج کو اس تمام تر سیاسی تصادم میں کھینچ رہے ہیں جو ایک انتہائی بے ہودہ فعل ہے۔ پاک فوج ہمارے دلوں میں بستی ہے کیونکہ اس نے ماضی میں بھارت سے دو بڑی جنگوں کے علاوہ سیاچین، کارگل اور مختلف محاذوں پر پاکستان کے عوام اور ریاست کا شاندار دفاع کیا ہے اور اس وقت پاکستان دُنیا کی صف اوّل کی ایٹمی طاقت کی حامل فوج ہے۔ پچھلے چالیس سالوں سے عالمی دہشت گردی کے خلاف پاک فوج کی شہادتیں اور جنگ کی قربانیاں بے شمار ہیں۔ افغانستان میں جو کچھ ہوا اور جس دلیری سے پاک فوج نے وہاں اپنا کردار ادا کیا وہ تاریخ کا روشن باب ہے۔ بلوچستان اور فاٹا میں جس طرح پاک فوج نے عالمی سازشوں کو ناکام بنایا وہ پاک فوج کی قربانیوں کے باعث ہی ممکن ہوا۔ پاکستان میں جب بھی کوئی قدرتی آفت یا غیر معمولی صورتِ حال ہوتی ہے تو اس میں پاک فوج ہی عوام کی مدد کو پہنچتی ہے۔ چند ماہ قبل مری میں ہونے والے سانحہ میں جو کام پاک فوج کے جوانوں نے کیا وہ پاکستانی عوام کے سر فخر سے بُلند کر گیا۔ پاکستان اپنے اہم خدو حال کی وجہ سے قریباٙٙ چاروں جانب حالتِ جنگ میں اور اس نازک صورتحال میں پاک فوج کے خلاف کسی بھی قسم کی سازش یا کردار کشی پاکستان سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ ففتھ جنریشن وار کی یہ ناکام حرکت نا صرف پاک فوج کو سیاست میں گھسیٹنے کی بدترین کوشش ہے بلکہ پاک فوج کے وقار کے بھی منافی ہے۔ میں ہمیشہ لکھتا اور کہتا آیا ہوں کہ پاک فوج آئین پاکستان کے تحت سیاست میں حصہ نہیں لے سکتی۔ پاک فوج ہمارے ماتھے کا جھومر ہے اور اسکو بدنام کرنے کی کسی بھی کوشش کی کبھی بھی نہ تو حمایت کی جا سکتی اور نہ ہی اسکی حوصلہ افزائی کی جا سکتی ہے بلکہ یہ ایک مذمتی عمل ہے جسکو جتنا جلدی ہو سکے روکا جانا چاہیے۔
میں ذاتی طور پر پچھلے کچھ دنوں کی مُلکی صورتحال کو بالکل 1993 کی صورتحال سے مشابہ سمجھتا ہوں، کیونکہ تب اس وقت کے آرمی چیف جنرل وحید کاکڑ نے تینوں فریقوں جن میں صدر غلام اسحاق، بے نظیر اور نواز شریف کو بٹھا کر نئے انتخابات کی راہ ہموار کی تھی۔ مگر موجودہ دور کے معاملات مشابہ تو ہیں مگر یہ نہایت گھمبیر ہیں اور پاک فوج کو ان حالات سے جوڑنا مُلکی سالمیت کے لئے نہایت خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ میری عمران خان صاحب اور انکی میڈیا ٹیم سے یہ درخواست ہے کہ وہ اپنے نمائندوں کو ایسے کسی بھی بیانیے سے دور رہنے کی ہدایات کریں جس سے پاک فوج پر کسی بھی قسم کا حرف آئے۔ بطور صحافی میں سمجھتا ہوں کہ بیرونی طاقتوں کی ایماء پر پاکستان میں حکومت تبدیل ہونے کے بیانیے میں پاک فوج کو ملوث کرنا پاکستان کی سالمیت سے کھیلنے کے مترادف ہے
بقلم: کاشف شہزاد