جہاں دیدہ اور فرض شناس لوگ ہمیشہ سے معاشرے کی کمزوری رہے ہیں اور انسانی نظریہ اس وقت تک پایہ تکمیل تک نہیں پہنچتا جب تک اس کی پشت پناہی پر کسی جاندار شخصیت کا ہاتھ نہ ہو انہیں شخصیات میں ایک امجد صاحب ہیں۔ جن کی شخصیت کے اوصاف کا اعتراف آج ببانگِ دُحل کرنا چاہتا ہوں۔ اعتراف کا لفظ اگر مثبت معنوں میں استعمال کیا جائے تو انگریزی میں اسے Acknowledgement کہتے ہیں۔ فنون لطیفہ کی دُنیا میں اعتراف انسان میں حوصلہ افزائی کا باعث بننے کے ساتھ ساتھ مزید بہتر فن کی تخلیق کے لئے بنیاد فراہم کرتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں بہت سے اعلیٰ پائے کے لوگ محض اس وجہ سے ترقی نہیں کر پاتے کہ انہیں سراہا نہیں جاتا، مگر اس روایت کو برقرار رکھتے ہوئے آج دل سے اپنے ماتحت عملہ کے ایک بہترین ممبر امجد صاحب کو سراہنا چاہتا ہوں۔
امجد عرصہ ڈیڑھ سال سے میرے ساتھ بطور ایس ایس جی کمانڈو سیکیورٹی پر مامور رہے ہیں۔ یہ ایسے انسان ہیں جو سایہ کی طرح ہر جگہ میرے ساتھ چلے، میں جہاں بھی جانے کی تیاری کرتا، یہ موصوف وقتِ مقررہ سے ہمیشہ پہلے گاڑی کے دروازے پر میرا انتظار کر رہے ہوتے۔ یہ اپنے کام کی لگن میں اس قدر مگن تھے کہ انہوں نے بہت کم عرصے میں میرا دل جیت لیا۔امجد کو اس گزشتہ عرصے میں میں نے یقین کیجئے ایک آئیڈیل سراپاِ پاکستانی اور مجسمِ مسلمان شخصیت کے طور پر جانا، جو اپنا کام بے حد ایمانداری اور توجہ سے کرتے ہیں۔ بھائی امجد ہمیشہ خوش شکل، خوش لباس، دھیما مزاج، شائستہ انداز، آواز میں نرمی، رویے میں مروّت، شخصیت میں شرافت اور علمیت کی با آوازِ بُلند بولتی حقیقت ہیں۔ اِنکی وفاداری اور کام کی نوعیت کا انداز میرے ساتھ دوسرے لوگوں سے انتہائی منفرد رہا اور اس چیز کا مجھے تب احساس ہوا جب میری آنکھوں کی ٹھنڈک، میرا بیٹا، بیماری کی شدت میں اس قدر مبتلا ہوا کہ اسے اسپتال لے جانا پڑا، اور ڈاکٹر حضرات نے تفصیلی معائنہ کے بعد ایمرجنسی میں انتہائی سرد پانی کی پٹیاں سارے جسم پر کرنے کی ترغیب دی، اُس وقت مجھے احساس ہوا کہ امجد میرا دستِ بازو بن کر کس طرح میرے ساتھ کھڑے ہیں، میری پریشانی میں مجھے کس طرح تسلی دے رہے ہیں، میرے بیٹے کو کس طرح سہلا رہے ہیں، اور مشین کی طرح تیزی سے میرے ساتھ مل کر اُسے انتہائی سرد کپڑے سے پٹیاں کر رہے ہیں۔ میں امجد کا اُس دن کے لئے ہمیشہ شکریہ گزار رہوں گا۔ یہئ وہ دن تھا جب امجد نے ہمیشہ کے لئے میرا دل جیت لیا تھا۔ انکی ڈیوٹی ہر معاملے میں قابلِ تعریف ہے۔ میرا جس جگہ بھی جانا ہو، یہ مانند چٹان کے میرے آگے کھڑے ایس ایس جی کمانڈوز کی طرح بے باک، نڈر اور عقاب کی نظریں لئے چلتے رہتے، مجھے انکے ساتھ رہ کر قلبی سکون ملتا اور میں انتہائی خوش ہوتا کہ میرے ساتھ ایک خوب سیرت مگر لاجواب شخصیت کام کر رہی ہے۔
آج امجد بھائ میرے ساتھ اپنی ذمہ داریاں نبھا کر اپنے گھر کو واپس جا رہے ہیں، انکے جانے سے دل اُداس سا ہو جائے گا مگر دُنیا بس آنے جانے کا ہی نام ہے، انکے میرے ساتھ گزرے بہترین لمحات میرے دل و دماغ میں نقش ہیں جو مجھے کبھی انکی یاد سے اُوجھل نہیں ہونے دیں گے۔ میری اللّه پاک سے دعا ہے کہ وہ بھائی امجد کو ہمیشہ شاد و آباد رکھے ، اِنہیں ان کے کاروبار میں برکت عطا کرۓاور جلد دوبارہ مُلاقات کے اسباب پیدا فرمائے۔
بقلم: کاشف شہزاد