پاکستان ایک زرعی مُلک ہے جسکی معیشت کا زیادہ تر دارومدار اور انحصار زراعت اور اس سے وابستہ صنعتوں پر ہے۔ شعبہ زراعت کا ہماری معیشت کی ترقی میں بنیادی و کلیدی کردار ہے۔ مُلک کی 70 فیصد آبادی کا روزگار زراعت سے ہی جُڑا ہے۔ اور یہ ایک انتہائی خوش آئند بات ہے کہ ہمارے مُلک میں اُگائی جانے والی نمایاں فصلوں کو بیرونِ ممالک میں خصوصی اہمیت دی جاتی ہے۔ مگر میرے وطنِ عزیز کا المیہ یہ ہے کہ قیامِ ہاکستان سے لیکر آج تک جتنی بھی حکومتیں گزری ہیں ہر دور میں اس اہم شعبے کو نظر انداز کیا گیا جس وجہ سے دیگر شعبوں کی طرح زراعت میں ترقی ممکن نہ ہو سکی۔ مگر 2014 میں پاکستان تحریکِ انصاف کیے چئیرمین اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی طرف سے دی گئی ہدایات کے مطابق انکی خیبر پختونخواہ حکومت نے دس بلین ٹری سونامی کا ایک منصوبہ شروع کیا جس نے مُلکِ پاکستان میں ایک انقلاب سا برپا کر دیا جسے مُلک بھر کے علاوہ دُنیا میں بھی سراہا گیا۔ اصل اس بلین ٹری سونامی کے پسِ پردہ زیتون کے درختوں کو اپنے مُلک میں فروغ دینا مقصود تھا جسمیں ہمارا مُلک کامیاب ہو گیا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان انٹرنیشل اولیوکونسل (IOC) کا 19واں مُلک بن کر دُنیا میں نمایاں ہوا ہے۔ انٹرنیشنل اولیو کونسل کے ممبران عالمی زیتون کی پیداوار کا 98% سے زیادہ حصہ پیدا کرتے ہیں۔ اور یہ ادارہ 1959 میں قائم ہوا جسکا ہیڈ کوارٹر ہسپانوی دارالحکومت میڈرڈ میں رکھا گیا۔ یہ تنظیم قابل قبول کوالٹی کنٹرول اور ٹیسٹنگ طریقوں کی بارے تفصیل کے ساتھ صارفین کو زیتون آئل کی شفافیت کی معلومات کے بارے آگاہ کرتی ہے۔ بین الاقوامی زیتون کونسل (IOC) کے 18 ارکان ہیں، جن میں زیادہ تر یورپ، مشرق وسطیٰ کے ممالک اور بحیرہ روم کے علاقے شامل ہیں۔ پاکستان اس کے 19ویں رکن کے طور پر شامل ہوا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان ہر سال تقریباً 1,500 ٹن زیتون کا تیل اور 830 ٹن ٹیبل زیتون پیدا کر رہا ہے۔ اس پیدوار سے مُلکی معاملات خاصے بہتر کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ جہاں پاکستان زیتون آئل کی پروڈکشن کر رہا ہے وہیں وطنِ عزیز کوکنگ آئل درآمد کرنے والا دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے۔ 2020 میں، پاکستان نے 2.1 بلین ڈالر مالیت کا پام آئل درآمد کیا، جس میں صرف بھارت کی 5.1 بلین ڈالر اور چین کی 4.1 بلین ڈالر کی پام آئل درآمدات تھیں۔ زیتون کے تیل کی پیداوار میں اضافے سے ناصرف ملک کا پام آئل کی درآمدات پر انحصار کم ہوگا بلکہ درآمد شدہ پام آئل کو ملکی زیتون کے تیل میں تبدیل کرنے سے پاکستانی صارفین کی صحت کو بہتر بنانے میں بھی کردار ادا ہو گا۔ اس کے ساتھ ساتھ زیتون کی افزائش مُلکی ترقی میں حصہ ڈالنے میں کلیدی کردار ادا کرئے گی۔ کیونکہ انٹرنیشنل اولیو کونسل یورپ کا بہت بڑا عالمی فورم ہے جہاں نا صرف مُلکی پالیسیز کے بارے معاملات طے ہوں گے بلکہ مستقبل کے چیلنجز سے نمٹنے کے متعلق بھی بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔ امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ زیتون کی پیداوار کے لئے روایتی کاشتکاری اور جدید تکنیکیں بنجر زمین کے بڑے حصے کو پیداواری بنانے میں انتہائی موّثر ثابت ہوں گی جس سے ناصرف نئی ملازمتیں پیدا ہوں گی بلکہ معیشت کی ترقی میں بھی اضافہ ہوگا۔ مُلک میں زیتون کی کاشتکاری کے لئے فی الوقت ڈرپ اریگیشن سسٹم 16,000 ہیکٹر اور 3.6 ملین زیتون کے درختوں پر لگائی جا رہی ہے۔ اولیو ٹائمز کے مطابق، پاکستان سرکاری طور پر 80 کلو گرام جبکہ نجی شعبے میں 600 کلوگرام فی گھنٹہ کے حساب سے 26 مختلف صلاحیتوں کے زیتون کے تیل نکالنے والے پلانٹس کو برقرار رکھنے میں خود کفیل ہو چّکا ہے جو کہ ایک خوش آئند بات ہے۔پاکستان کی آب و ہوا زیتون کی پیداوار کے لیے انتہاٙئی سازگار ہے، کیونکہ زیتون کے درخت ان علاقوں میں تیزی سے اگتے ہیں جہاں طویل گرم موسم کے بعد معتدل موسم ہوتا ہے اس لحاظ سے میرے مُلک کی سر زمین ہر لحاظ سے بہتر ہے۔ اُمید ہے موجودہ حکومت پاکستان کو زیتون کی پیداوار میں عالمی رہنما کے طور پر دُنیا میں نمایاں کرنے کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتں بروئے کار لائے گی جس سے مُلک نا صرف ترقی کرئے گا بلکہ مُلکی عوام غربت، بے روزگاری اور خفظانِ صحت کے مسائل سے بھی چُھٹکارا پا سکے گا۔
بقلم: کاشف شہزاد