1947 میں بھارت اور پاکستان الگ ہوئے تھے یعنی آزادی کے بعد دونوں مُلکوں کے لئے حالات لگ بھگ ایک جیسے تھے مگر دونوں میں ایک فرق واضح تھا کہ پاکستان کی آبادی بھارت سے کئی گُنا کم تھی جسکا پاکستان کو اچھا خاصہ فائدہ حالات کو بہتر بنانے میں حاصل ہوا۔ یہ دور وہ دور تھا جب ہر فرد پاکستان کو مستقبل کا ایشین ٹائیگر تصور کر رہا تھا کہ یہ مستقبل میں پورے ایشیاء کی بھاگ دوڑ سنبھال لے گا۔ لیکن پاکستان کے ساتھ ایسے ایسے کھلواڑ کئے گئے جس نے اس مُلک کو دوبارہ اپنے پیروّں پر نہیں آنے دیا۔ 1950 میں بھارت کے وزیرِ اعظم جواہر لال نہرو نے بھارت کی بھاگ دوڑ سنبھالی تو اسی دور میں بھارت میں انڈسٹریلائزیشن ہونی شروع ہو گئی جس نے خرگوش کی چال چلتے چلتے ایشیا میں اپنے قدم جما لئے۔ اس دور میں بھارت کی گورنمنٹ مکمل طور پر اکانومی کو کنٹرول میں رکھے ہوئے تھی مگر پھر بھی انٹرنیشنل مارکیٹ اس کے لئے محدود تھی۔ اس وقت بھارت کے حالات اکانومی کے حوالے سے پاکستان کے مقابلے بہت پچیدہ تھے مگر جس چیز نے پاکستان کو آسمانِ اوّل سے نیچے گرانا شروع کیا وہ مُلک میں غیر سیاسی استحکام تھا۔ ۱۹۵۰ میں پاکستان کی معاشی پالیسی کو خارجہ پالیسی کے ساتھ نتھی کر دیا گیا۔اور دس سالوں میں بھارت پاکستان کے مدِ مقابل آ گیا اور پھر پاکستان کی ترقی تنزلی میں تبدیل ہونی شروع ہوئی اور وہ آج تک جاری و ساری ہے۔
جس قدر مُلک کی اکانومی ضروری ہوتی ہے اسی قدر ضروری اُس مُلک میں تعلیم اورتعلیم یافتہ لوگ ہوتے ہیں کیونکہ تعلیم ہی ایک واحد راستہ ہے جس کی بدولت مُلک و قوم دُنیا میں نمایاں ہوتے ہیں۔ وطنِ عزیز نے اعلیٰ تعلیم پر کبھی اس قدر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جسقدر اسکی عوام ذہین ہے، یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا ہر تعلیم یافتہ شخص اپنے مُلک سے باہر نوکری کرنے کو ترجیح دیتا ہے، جبکہ ہندوستانIITs اور IIMs جیسے ٹیکنالوجی پراجیکٹ میں اپنی توانائی صرف کر رہا ہے تاکہ اسکی پڑھی لکھی عوام ان پراجیکٹ کی بدولت دنیا میں پہچان بنا سکے, یہی وجہ ہے کہ ہندوستان آئی ٹی کی دنیا کا پاور ہاؤس ہے جبکہ پاکستان کی موجودگی آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ میرے پاکستان میں ایسے اداروں کی کمی ہے اس لئے ہماری عوام حدید ٹیکنالوجی سے کوسوں دور ہے۔ اسکے علاوہ مُلکِ پاکستان میں تعلیم میں صنفی تفاوت بہت زیادہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں کچھ جگہوں پر صرف 18 فیصد خواتین کے پاس دسویں یا اس سے زیادہ تعلیم ہے جبکہ بھارت نے اپنی یونیورسٹیوں پر خوب انویسٹ کیا، انھیں ڈیویلپ کیا۔ نوے کی دہائی میں بھارت نے آئی ٹی انڈسٹری کی بنیاد رکھی جس میں مائیکروسافٹ کے فاؤنڈر، بل گیٹس کو باقاعدہ مدعو کرکے اس گروتھ کو فیول کیا۔ آج بھارت کم سے کم میکرو اکنامک نمبرز کے حوالے سے دنیا کی ٹاپ معیشتوں کے ساتھ مقابلہ کررہا ہے یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کے آئی ٹی سیکٹر میں 40 فیصد خواتین ملازمین ہیں اور یہ خواتین اس مُلک کی آمدنی میں اضافہ اور تکمیل میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہیں۔ اسکے علاوہ جس چیز نے پاکستان کو بھارت کے مدِ مقابل آنے سے کوسوں میل دور کر دیا وہ پاکستان اور بھارت کی اشرافیہ کے درمیان موجود سوچ کا فرق ہے جسے سمجھنا ایک حد تک بہت ضروری ہے۔
جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا کہ آزادی کی تحریک کے بعد تھوڑے ہی عرصے میں بھارت سے جاگیرداری کا خاتمہ ہونا شروع ہو گیا، اور اسکی جگہ انڈسٹریلائزیشن نے لے لی۔ اس قدم سے وہاں جو اشرافیہ پیدا ہوئی، وہ حقیقی معنوں میں کاروباری تھی۔ انھیں کمانے کے ساتھ ساتھ کاروبار کو آگے بڑھانا آتا تھا، اسی وجہ سے وہاں ٹاٹا، برلا، مٹل، بجاج اور امبانی جیسے بڑے گروپس پیدا ہوئے۔ انھیں اپنی گروتھ کے لیے ایک معاشی خوشحال اور ترقی کرتی مڈل کلاس کی ضرورت تھی جنھیں مال بیچا جاسکے، انھوں نے اس حساس نوعیت کو گردانتے ہوئے بھارت میں کاروبار دوست پالیسیاں بنائیں اور زمینوں کے کاروبار کی بجائے کارخانے بنانے پر زور دیا، اسکے ساتھ دنیا بھر کے سرمایہ کاروں اور ملٹی نیشنلز کو اپنی طرف راغب کیا تاکہ اپنے ساتھ وہ سرمایہ لائیں اور بھارتیوں کی قوت خرید میں اضافہ کرسکیں۔ انہی کاروبار دوست پالیسیوں کی بدولت بھارتی معشیت کچھ ہی سالوں میں 5 ٹریلین ڈالر اکانومی بننے کی راہ پر کامیابی کے ساتھ گامزن ہے۔ جبکہ وطنِ عزیز پاکستان کی صورتحال شروع سے ہی مایوس کن رہی، یہاں آزادی کی تحریک کے لیڈران یا تو جلد انتقال کرگئے، قتل کردئیے گئے یا مارشل لاء کی نظر ہو گئے۔ اس وجہ سے یہاں پر جاگیرداری آب و تاب سے چلتی رہی جو اب تک جاری ہے۔ وطنِ عزیز میں حقیقی معنوں میں بزنس مائنڈ سیٹ یہاں کبھی پنپ ہی نہیں سکا اسی لئے ہم کوئی ٹاٹا برلا، امبانی پیدا نہیں کرسکے۔ یہاں کی اشرافیہ انٹرنیشنل مارکیٹ میں مقابلہ کرنے کے قابل ہی نہ ہوسکی، نتیجتاً یہاں پراپرٹی، چینی کے کارخانوں کا کاروبار آسمان پر ہے جسکا صرف مالک کو فائدہ ہے مُلکی معیشت اس فائدے سے عاری ہے۔ چونکہ ہماری اشرافیہ کو بزنس سے پیسہ کمانا نہیں آتا، لہذا یہاں فارن ریمیٹنس کا ہمیشہ کال پڑا رہا۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے یہاں قرضوں اور امداد سے ملک کے اخراجات چلانے کا رواج ہمیشہ فروغ پاتا رہا امریکہ و مغرب پاکستانی اشرافیہ کی اس کمزوری کو اچھی طرح بھانپ گئے، اسی لئے انہوں نے پاکستان کو قرضوں اور امداد کے شکنجے میں بری طرح جکڑ کر رکھا ہوا ہے۔ آپ آج بھی دیکھ لیجیے کہ جس وقت بھارت روس کے ساتھ خالص کاروباری ڈیلز کررہا ہے، پاکستان آئی ایم ایف اور امریکہ سے بیل آؤٹ پیکج کی امید لگائے بیٹھا ہے۔ بھارتی اشرافیہ کی سوچ یہ ہے کہ اس وقت باقی دنیا سے سستا آئل خرید کر ہم اپنی پراڈکٹس کی کاسٹ نیچے لا کر منڈیوں میں دوسری پراڈکٹس کے مقابلے میں اچھا پرفارم کرسکتے ہیں جبکہ پاکستانی اشرافیہ اکانومی کے تین ماہ گزارنے کے لئے آئی ایم ایف اور امریکہ سے بیل آوّٹ پیکج کے گرین سگنل کے لئے لائن میں لگی ہے۔ یہی واضح سوچ کا فرق ہے جو پاکستان کو آگے بڑھنے سے روک رہا ہے۔ پاکستان ایک ترقی یافتہ ملک بن سکتا ہے اس کے لیے حکومت پاکستان کو کچھ سخت فیصلے اور پالیسی میں تبدیلیاں کرنا ہوں گی۔ کاروبار دوست پالسی اپنانی ہوگی، سرمایہ کاروں کو ریلیف دینا ہوگا، ٹیکس کلچر کو فروغ دینا ہوگا، سب سے اہم دہشتگردی کو کنٹرول کرنا ہوگا تاکہ بیرونی سرمایہ کے ساتھ ملٹی نیشنل کمپنیز اس مُلک میں اپنے قدم جمائیں اور مُلک کی ساکھ کو مضبوط بنا سکیں
بقلم: کاشف شہزاد