حکومتی جماعتیں دو مہینے پہلے تک عمران خان حکومت سے صاف و شفاف فوری انتخاب کا مطالبہ کر رہی تھیں، اُنہوں نے اپنے مطالبات کو بزور طاقت منوانے کے لئے اسلام آباد کی طرف پانچ مرتبہ لانگ مارچ کئے۔ پی ٹی آئی حکومت نے ان کے کسی احتجاج و مارچ اور دھرنے میں کوئی رکاوّٹ ڈالی نہ قیادت کو پابند سلاسل کیا، ہر دفعہ انکا احتجاج عوام کی طرف سے خاطر خواہ پذیرائی نہ ملنے کی وجہ سے ناکام رہا۔ اب بدلتے وقت کی وجہ سے اس وقت اتحادی جماعتوں کی مخلوط حکومت ہے اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان سڑکوں پر صاف و شفاف فوری انتخابات کا مطالبہ لے کر سڑکوں پر ہیں۔ حکومت نے انکے سڑکوں پر آنے کی وجہ سے ان کے لانگ مارچ کو روکنے کے لئے تمام تر ہتھکنڈے استعمال کر لئے لیکن عوام کے آزادی مارچ کو زبردستی روکا نہ جا سکا کیونکہ یہ اتنا آسان نہیں تھا جتنا سمجھا جا رہا تھا۔ اپوزیشن کا لانگ مارچ کامیاب ہو گیا اور اسکی ایک بات بھی واضح ہو چُکی کہ حکومت کی اس تبدیلی سے پاکستان کی حقیقی آزادی و خود مختاری کا سفر شروع ہوگیا ہے۔ تاہم اس کا فیصلہ بہر حال عوام نے ہی کرنا ہے۔ یہ امر واضح ہے کہ عوام اغیار کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کا فیصلہ کر چُکے ہیں تاہم حکومت ماننے کے لئے تیار نہیں ہے کہ عوام آزادی مارچ کے ذریعے بیرونی تسلط سے چھٹکارا حاصل کر پائیں گے۔ اس میں شک نہیں کہ حکومت خود کو بچانے کے چکر میں مزید انتشار اور بے یقینی کی کیفیت کا شکار ہوتی جا رہی ہے۔ حکومت کے اس منفی رُجحان کو اگر بغور دیکھا جائے تو پاکستان کی تاریخ کی کمزور ترین حکومت کو دُنیا کے سب سے بڑے احتجاج کا سامنا تھا۔ وزیرِ داخلہ کے سارے دعوئے اور اقدامات دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں، عوام کا ہجوم سڑکوں پر سراپا احتجاج تھا، حکومت آزادی مارچ روک سکی نہ ہی عوام کے سمندر کے آگے بند باندھ سکی، قوم غلامی سے آزادی کے جس راستے پر چل نکلی تھی حکومت اسے لاکھ کوشش کے باوجود روک نہیں پائی۔
مگر حقیقی آزادی مارچ کے پسِ پردہ وہ با معنی لوگ سامنے آنے سے قاصر رہے جنہوں نے تحریکِ انصاف کی اس حکومت میں اقتدار کے مزے لوٹے، اُن میں سرِ فہرست پنجاب کی لیڈرشپ جس میں شفقت محمود، محمودالرشید، اور اعجاز چوہدری بھی شامل ہیں۔ ان لوگوں نے آزادی لانگ مارچ سے پہلے ہی اپنے ہتھیار ڈال دئیے اور کچھ بھی تردد کرنے سے پہلے اپنے آپکو بآسانی پولیس کے حوالے کر دیا۔ اس ضمن میں بطور صحافی مرکزی قیادت کو مشورہ یہی دوں گا کہ پنجاب کے گڑھ یعنی لاہور میں تحریکِ انصاف کے حوالے سے سیاسی قیادت کو بدلنے پر غور کریں ۔ اگر خان صاحب موجودہ عہدیداران کے ساتھ الیکشن میں جانا چاہتے ہیں تو یہ بات بلکل واضح ہے کہ جس کامیابی کی وہ اُمید کر رہے ہیں وہ مکمل حاصل نہیں ہو پاۓ گی۔ سابق وفاقی وزیرِ تعلیم شفقت محمود صاحب پنجاب کی قیادت لیڈ کرنے کے اہل نہیں ہیں کیونکہ جہاں انکی ضرورت تھی وہاں وہ اپنی موحودگی ظاہر نہیں کر پائے۔ اِس کے علاوہ لاہور کے سرکردہ میاں محمود الرشید اور اعجاز چوہدری صاحب نے سکون و آرام سے گرفتاریاں دیکر اپنے آپکو اپنے عہدوّں سے سبکدوش کروا لیا یہی وجہ ہے کہ آزادی لانگ مارچ میں ہر فرد کی زباں پر لاہور کے صدر کہاں ہیں کہ الفاظ جاری تھے؟عثمان بزدار کہاں ہیں؟ ملتان کی لیڈر شپ کہاں ہیں؟ شاہ محمود قریشی کو کیا قافلہ ملتان سے اپنے حلقے سے نہیں لانا چاہیے تھا؟ پنجاب سے کوئ بھی قافلہ اسلام آباد تک پہنچنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔اس کے برعکس پی ٹی آئی لاہور کے جنرل سیکرٹری زبیر نیازی صاحب چند نوجوانوں کے ساتھ اکیلے پولیس کا مقابلہ کرتے رہے۔ جبکہ حسان نیازی بھی کل سڑکوں پر انکے شانہ بشانہ رہے۔ خواتین میں ڈاکٹر یاسمین راشد، عندلیب عباس صاحبہ اور چند خواتین انکے ساتھ پولیس کے مردانہ وار مقابلہ کرتی رہیں۔ میرے خیال میں مستقبل الیکشن میں قیادت کو ٹکٹیں اِن لوگوں کو بلکل نہیں دینی چاہیئں جو مشکل وقت میں نظر نہیں آے۔ تحریک انصاف کو پنجاب اور لاہور کے لیول پر نئی تنظیم سازی کی ضرورت ہے۔ زبیر نیازی ، ڈاکٹر یاسمین، حماد اظہر اور محترمہ عندلیب عباس صاحبہ کے علاوہ کوئی بھی موجودہ عہدیدار نہ عوامی ہے اور نہ ایکٹیو ہے، اس بارے قیادت کو سوچنا ہوگا اور فیصلہ کرنا ہوگا کیونکہ یہی وہ بہترین وقت ہے جسکی ضرورت تحریکِ انصاف کی قیادت تلاش میں ہے
بقلم: کاشف شہزاد