برطانیہ بھر میں ایک نئی فلم کے خلاف مظاہرے پھوٹ پڑے ہیں جسے اس کے ناقدین نے “توہین آمیز” اور “نسل پرست” قرار دیا ہے، اور تقریباً 1,20,000 سے زیادہ لوگوں نے اس کے خلاف ایک پٹیشن پر دستخط کیے ہیں – جس کے نتیجے میں کچھ سینما گھروں نے اپنے شیڈولز سے فلم کی نمائش ہٹا دی ہے۔
لیکن دی ” لیڈی آف ہیوین ” کے بنانے والوں اور آزاد رائے کی مہم چلانے والوں کا کہنا ہے کہ یہ ایک “خطرناک” مثال قائم کی گئی ہے۔
یہ فلم، جو 3 جون کو برطانیہ میں ریلیز ہوئی، اس میں پیغمبر اسلام حضور اکرم محمد ﷺ کی پیاری بیٹی، حضرت فاطمۃ الزہرہ(علیہ السلام) کی کہانی کو دکھایا گیا ہے، اور اسے ایسا کرنے والی پہلی فلم قرار دیا گیا ہے۔ یہ کہانی تقریباً 1400 سال بعد جدید دور میں ایک نوجوان عراقی بچے کی کہانی سے جڑی ہوئی ہے۔
اسے شیعہ عالم شیخ یاسر الحبیب نے لکھا ہے اور اس میں خاتون جنت سیدہ فاطمۃ الزہرہ(علیہ السلام) کے وصال کی تصویر کشی کی گئی ہے، اور اس فلم کی کہانی میں انہیں “دہشت گردی کے پہلا شکار” کے طور پر دکھایا گیا ہے۔
اسلام کے مختلف مکاتب فکر کے اس بارے میں مختلف آراء ہیں، اور یہ بنیادی طور پر سنی مسلمان ہیں جنہوں نے فلم پر کڑی تنقید کی ہے، اور کہا ہے کہ فلم کی کہانی میں تاریخی واقعات کو درست طریقے سے پیش نہیں کیا گیا ہے۔
فلم کو برطانیہ کے مختلف سینما گھروں میں دکھایا جانا تھا – بعد میں عملے اور کسٹمرز کی حفاظت کے خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے تمام اسکریننگز کو منسوخ کردیا گیا۔
یہ فلم اتنی متنازعہ کیوں ہے؟
پردے پر اور فن مصوری میں اسلامی پیغمبروں اور مقدس شخصیات کی تصویر کشی طویل عرصے سے متنازعہ رہی ہے۔
The Lady Of Heaven فلم سازوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے اسلامی روایت کے مطابق، مقدس ہستی کو نہ دکھانے کے لیے بہت کوششیں کیں جن کی نمائندگی ایک انسان کرسکتا ہے، فلم میں کوئی اداکارہ حضرت فاطمۃ الزہرہ(علیہ السلام) کردار ادا نہیں کر رہی تھی۔ اس کے بجائے، کردار کو CGI، لائیٹنگ اور ڈیجیٹل ایفیکٹس کے مرکب کے ذریعے بنایا گیا ہے۔
لیکن فلم کی تنقید زیادہ تر کئی دوسرے کرداروں کی تصویر کشی پر مرکوز ہے، جن میں پیغمبر اسلامﷺ کے صحابہ کرام ،جناب حضرت ابو بکرصدیق اورحضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ،کے کردار بھی شامل کیے گئے ہیں۔
لیڈی آف ہیون کی کہانی کیا ہے؟
دی لیڈی آف ہیون کے ایگزیکٹو پروڈیوسر ملک شلبک نے اسکائی نیوز کو بتایا کہ یہ فلم سیدہ فاطمۃ الزہرہ(علیہ السلام) کی “زندگی، ان کی جدوجہد، وہ سفر جس سے وہ گزری” کی کہانی بیان کرتی ہے۔
ملک شلبک نے مزید کہا کہ: “ہمیں یقین ہے کہ وہ آج ہمارے لیے تاریخ کی بہترین شخصیت ہیں جن سے بہت کچھ سیکھنا ہے، یہ جاننا ہے کہ انتہا پسندی، بنیاد پرستی اور بدعنوانی جیسی چیزوں سے کیسے نمٹا جائے۔ اور ہم نے محسوس کیا کہ اس کہانی کو دنیا کے ساتھ شیئر کرنا ضروری ہے۔”
انہوں نے کہا کہ موضوع کے اشتعال انگیز ہونے کا مسئلہ “اس بات پر منحصر ہے کہ آپ کس سے پوچھتے ہیں”، اور مزید کہا: “آپ جس بھی مذہبی موضوع پر کچھ بنائیں گے تو اس سے مختلف گروہوں کے درمیان اختلاف رائے ہو گا…
“ہم نے ایک سال قبل از پروڈکشن میں اس بات کو یقینی بنانے میں گزارا کہ تاریخی حقائق درست رہیں۔”
تاہم، شاہد علی، ایک عالم دین جنہوں نے بریڈ فورڈ میں فلم کے خلاف احتجاج کا اہتمام کیا، کہا کہ یہ فلم “اسلام کے ابتدائی خلفاء کی جھوٹی داستان پیش کرتی ہے جس میں ان کو منفی انداز میں پیش کیا گیا ہے”۔
شاہد علی نے اسکائی نیوز کو بتایا: “یہ شخصیات پوری مسلم دنیا کے 2 بلین مسلمانوں کی بڑی اکثریت کے لیے انتہائی قابل احترام ہیں۔
“اگر اس تفرقہ انگیز اور اشتعال انگیز اور اکسانے والی فلم میں انہیں دہشت گرد کے طور پر پیش کیا گیا ہے، تو مسلمان جو قدرتی طور پر ان شخصیات سے محبت اور ان کی عزت کرتے ہیں، جو ہمارے مذہب کی بانی شخصیات ہیں، یہ دیکھنے والوں میں ایک غلط تاثر پیدا کرتا ہے – خاص طور پر ان لوگوں میں جن کو اسلام کے بارے میں کم سے کم علم ہے – یہ ایسا کہنا ہے کہ اسلام کی مرکزی شخصیات درحقیقت دہشت گرد ہیں، اور تمام مسلمان جو ان کی تعظیم کرتے ہیں اور ان کی عزت کرتے ہیں سب ایک جیسے ہیں۔
” یہ ایک انتہائی خطرناک اور فرقہ وارانہ بیانیہ ہے، جو کہ مزید شدت پسندی کو ہوا دے گا۔”
فلم کا اس بارے میں کیا کہنا ہے؟
برطانیہ کے سینما Cineworld کو بھیجے گئے ایک خط میں جو کہ اس کی سوشل میڈیا سائٹس پر شیئر کیا گیا، بولٹن کونسل آف مساجد نے فلم کو “توہین آمیز” قرار دیا اور کہا کہ اس سے “دنیا بھر کے مسلمانوں کو بہت تکلیف پہنچی ہے”۔
خط میں مزید کہا گیا: “یہ ایک فرقہ وارانہ نظریے سے جڑی ہوئی ہے اور مسلم کمیونٹی کے لیے فطرت میں توہین آمیز ہے۔
“فلم میں بہت سے طریقوں سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بے ادبی کی گئی ہے اور یہ ہر مسلمان کے لیے سخت پریشان کن ہے۔”
“برطانیہ کے سینما گھروں سے لیڈی آف ہیوین کو ہٹا دیں” یہ پٹیشن، جسے مسلم یو کے نامی صارف نے ترتیب دیا ہے اور اب اس پر 126,000 سے زیادہ لوگوں نے دستخط کیے ہیں، اس میں کہا گیا ہے کہ اس فلم نے ” مسلمانوں کو دلی تکلیف” اور “اسلام کے بارے میں غلط معلومات پھیلائی”، اور “براہ راست حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بے ادبی کی گئی ہے۔
برٹش مسلم نیوز سائٹ 5Pillars کے ایڈیٹر روشن ایم صالح نے ٹوئٹر پر لکھا: “میں اسے سادہ الفاظ میں کہتا ہوں – لیڈی آف ہیوین پر پابندی لگائی جانی چاہیے کیونکہ یہ فرقہ وارانہ تشدد کا باعث بن سکتی ہے۔ مسلمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام سے محبت کرتے ہیں اور اس طرح کی اشتعال انگیزی کچھ گمراہ افراد کی طرف سے مجرمانہ ردعمل کا باعث بن سکتی ہے۔”
اظہارِ رائے کی آزادی اور ثقافت کو روکا نہیں جاسکتا
ملک شلیبک نے کہا کہ لوگ فلم پر تنقید کرنے اور اپنی رائے رکھنے کے لیے آزاد ہیں، لیکن ان کا کہنا ہے کہ مظاہرے کرنا “حد سے تجاوز” ہے اور یہ “مختلف خیالات رکھنے والے دوسرے لوگوں کو سنسر کرنے” کی کوشش ہے۔
ایک ٹویٹ میں برطانیہ کی بیرونس کلیئر فاکس نے کہا کہ فلم کو سینما گھروں سے ہٹانے کا فیصلہ فنون لطیفہ کے لیے تباہ کن، آزادی اظہار کے لیے خطرناک، شناخت کی سیاست پر بحث کرنے والوں کے لیے سبق ہے، کیا اس سے جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں ہے؟
اور تقریباً 3,700 لوگوں نے ایک آن لائن جوابی پٹیشن پر دستخط کیے ہیں جس میں برطانیہ کے سینما گھروں کی طرف سے فلم کو سپورٹ کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے، یہ دلیل دی گئی ہے کہ “آن لائن ہجوم اور غنڈوں کی وجہ سے اسے ہٹانا برطانیہ جیسے آزاد اور ترقی پسند ملک کے لیے مناسب نہیں ہے”۔
فلم کے خلاف احتجاج کہاں کہاں ہو رہا ہے؟
فلم کے خلاف بریڈ فورڈ، لیڈز، شیفیلڈ، بولٹن، بلیک برن، برمنگھم اور سٹریٹ فورڈ میں سینما گھروں کے باہر احتجاج کیا گیا۔
کچھ کی فوٹیج آن لائن گردش کر رہی ہے، جس میں مبینہ طور پر شیفیلڈ میں ایک سنیما کے باہر عملے کے ایک ممبر کو دکھایا گیا ہے کہ وہ ایک ہجوم کو بتا رہا ہے کہ فلم روک لی گئی ہے۔
تازہ ترین مظاہرہ بدھ کے روز مشرقی لندن کے شہر سٹریٹ فورڈ میں ویو سینما کے باہر ہوا۔
عملے کی حفاظت کے بارے میں Cineworld کے تبصرے کے بارے میں پوچھے جانے پر، مسٹر علی، جنہوں نے بریڈ فورڈ احتجاج کا اہتمام کیا، کہا کہ کوئی گرفتاری نہیں ہوئی ہے اور نہ ہی کوئی زخمی ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ” ہمارا مظاہرہ بالکل پر امن ہے، ہم نے کسی کو کام پر جانے سے نہیں روکا اور نہ ہی کوئی رکاوٹ کھڑی کی ہے۔” “ہماری کوئی گرفتاری نہیں ہوئی اور نہ ہی املاک کو کوئی نقصان نہیں پہنچا ہے۔
“ہم نے اس سے بھی بدترمظاہرے ہوتے ہوئے دیکھے ہیں۔ لیکن ایسا کیوں ہے کہ جب مسلمانوں کے داڑھی والے مردوں کا ایک گروہ ایک پر امن مظاہرہ بھی کرے، ، تو ان کو فوراً شیطان بنا دیا جاتا ہے اور بہت ہی منفی انداز میں پیش کیا جاتا ہے؟”