جہادیوں کا صفایا کرنے کے لیے 2018 کے آپریشن کے بعد سے شام کے ایک ویران اور تباہ حال شہر حجر الاسود میں جیکی چین کی پروڈیوس کردہ ایکشن فلم کی شوٹنگ کی جارہی ہے ۔
ہوم آپریشن چین کے 2015 میں یمن کی جنگ سے چینی اور دیگر غیر ملکی شہریوں کے انخلاء پر مبنی ہے، یہ آپریشن بیجنگ کے لیے ایک سنگ میل کے طور پر دیکھا گیا تھا۔
یمن کو شوٹنگ کے لیے انتہائی خطرناک جگہ سمجھا جاتا تھا اور فلم کے کچھ مناظر، جسے اماراتی پروڈکشن کمپنی کی حمایت بھی حاصل ہے، شام میں شوٹ کیے جا رہے ہیں۔
جمعرات کو حجر الاسود کے کھنڈرات میں یمنی قبائلی لباس میں اداکاروں، یونیفارم میں شامی ایکسٹرا اور پولو پہنے ہوئے چینی فلم کے عملے کے ارکان سے بھرے پڑے تھے۔
جیکی چن فلم کے مرکزی پروڈیوسر ہیں، حالانکہ ان کا شام کا دورہ کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔
فلم کو ایک بلاک بسٹر کے طور پر پیش کیا جارہا ہے جس میں جنگ میں پھنسے افراد کو بہادری سے نکالنے میں چینی حکام کے کردار کو دکھایا گیا ہے۔
نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے ڈائریکٹر ینکسی سونگ نے فلم کے بارے میں کہا کہ “یہ ان سفارت کاروں کے گرد گھومتی ہے جو چینی کمیونسٹ پارٹی کے ممبر ہیں، جنہوں نے جنگ زدہ ملک میں گولیوں کی بوچھاڑ کی زد میں اپنی جان کی پرواہ کیے بغیرتمام چینی ہم وطنوں کو محفوظ طریقے سے چینی جنگی جہاز تک پہنچایا،”
شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت کے ساتھ اچھے سفارتی تعلقات برقرار رکھنے والے چند ممالک میں سے ایک چین بھی ہے جس کا سفیر، شام میں شوٹنگ شروع کرنے کے لیے موجود تھا، جو اگلے کئی دنوں تک جاری رہنے کی امید ہے۔
چھوٹی سی تقریب کے لیے تین زبانوں میں ایک سرخ بینر بھی لہرایا گیا تھا اور ایک ٹینک کے سامنے “امن اور محبت” لکھا ہوا تھا۔
‘کم لاگت والا اسٹوڈیو’
حجر الاسود، جس کا عربی میں مطلب سیاہ چٹان ہے، کبھی دمشق کا ایک گنجان آباد مضافاتی علاقہ تھا جو یرموک کے فلسطینی پناہ گزین کیمپ کے قریب واقع تھا۔
2011 میں شروع ہونے والی شامی خانہ جنگی میں دونوں علاقے جنگ کے اہم ترین مقامات بن گئے تھے اور کم از کم جزوی طور پر اسلامک اسٹیٹ گروپ کے کنٹرول میں تھے۔
مئی 2018 میں شامی حکومت کی حامی فورسز کی طرف سے دونوں علاقوں کو دوبارہ اس وقت فتح کیا جب شامی حکومت نے پورے دارالحکومت دمشق کو دوبارہ اپنے کنٹرول میں لے لیا۔
حجر الاسود جو کہ کبھی ایک خوبصورت رہائشی علاقہ تھا اب سرمئی، ٹوٹی ہوئی عمارتوں کے خوفناک پھیلاؤ میں تبدیل ہو چکا ہے۔
چند رہائشی حجر الاسود کے سب سے کم تباہ شدہ حصوں میں واپس آ گئے ہیں، باقی ابھی بھی مکمل طور پر غیر آباد ہے۔
“شام کے اکثرجنگ زدہ علاقے ایک فلمی اسٹوڈیو میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ یہ علاقے فلم پروڈیوسروں کو اپنی طرف متوجہ کررہے ہیں،” ہدایت کار رواد شاہین نے کا ایسا کہنا ہے، جو کہ ہوم آپریشن کے شام کے عملے کا حصہ ہیں۔
“ان علاقوں سے ملتے جلتے اسٹوڈیوز کی تعمیر بہت مہنگی ہے، اس لیے ان علاقوں کو کم لاگت والے اسٹوڈیوز کے طور پر سمجھا جاتا ہے،” انہوں نے کہا۔
پروڈکشن ٹیم کا کہنا ہے کہ وہ شام میں فلم بنانے کے لیے کئی دیگر مقامات کو استعمال کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، جہاں اسد کے دونوں اتحادی ایران اور روس کی پروڈکشنز بھی شوٹ کی گئی ہیں۔
شام کو بین الاقوامی پابندیوں کا نشانہ بنایا گیا ہے اور وہ ابھی بھی بہت سے ایسے ہتھیاروں اور بارودی سرنگوں بھرا ہوا ہے جو کہ پھٹے نہیں تھے اور کبھی بھی دھماکہ کر سکتے ہیں ، پچھلے سال اسے بارودی سرنگوں کی ہلاکتوں کے لیے دنیا کا سب سے مہلک ملک کا درجہ دے دیا گیا تھا۔
بحری قزاقی مخالف گشت پر مامور چینی بحریہ کے جہازوں کو 2015 میں یمن کی طرف موڑ دیا گیا تھا، اس وقت کے حکام نے کہا تھا کہ 10 مختلف ممالک کے سیکڑوں افراد بڑھتے ہوئے تنازعے کی وجہ سے پھنسے ہوئے تھے۔
اس کامیاب آپریشن کو بیجنگ نے اس وقت اپنی بحریہ کے لیے ایک قابل فخر لمحہ، اس کے انسانی اصولوں اور اس کی بڑھتی ہوئی عالمی رسائی کا ثبوت قرار دیا تھا۔
مزید انٹرٹینمنٹ کی خبریں پڑھنے کیلئے اس لنک پر کلک کریں : انٹرٹینمنٹ