بالی ووڈ اسٹارعامر خان کی فلم لال سنگھ چڈھا کو بھارت بھر میں بائیکاٹ اور احتجاج کا سامنا کرنا پڑا اور یہ باکس آفس پر اچھا بزنس بنانے میں ناکام رہی۔ اس فلم کی اوپننگ 12 کروڑ روپے ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ پچھلے 13 سالوں میں عامر خان کی کسی بھی فلم کی سب سے کم اوپننگ ہے۔ توسیع شدہ ویک اینڈ کے باوجود فلم 50 کروڑ روپے کا ہندسہ بھی عبور نہیں کر پائی ہے۔
اب، تازہ ترین رپورٹ کے مطابق، فلم کی ناکامی نے اداکار کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ لال سنگھ چڈھا عامر کا پرجوش منصوبہ تھا، جسے بننے میں 15 سال سے زیادہ کا عرصہ لگا۔
بالی ووڈ ہنگامہ کی رپورٹ کے مطابق عامر خان صدمے کی حالت میں ہیں اور فلم کے ناکام ہونے سے انہیں سخت دھچکا لگا ہے۔ انہوں نے عامر کے قریبی دوست اور سابقہ اہلیہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، "عامر نے فاریسٹ گمپ کے بہترین ورژن کو ممکن بنانے کے لیے واقعی سخت محنت کی تھی۔ اس ناکامی سے انہیں بہت نقصان پہنچا ہے۔”
تاہم،بالی ووڈ انڈسٹری کے ایک اندرونی نے ای ٹائمز کو بتایا کہ عامر صدمے کی حالت میں نہیں ہیں اور یہ رپورٹ "سچ نہیں ہے”۔
کچھ رپورٹس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ فلم کے تقسیم کار ہونے والے نقصانات کے معاوضے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ تاہم، لال سنگھ چڈھا کے پروڈیوسروں اور تقسیم کاروں نے ان افواہوں کی تردید کی اور کہا کہ "ان کا کوئی پیسہ ضائع نہیں ہوا”۔
ای ٹائمز کے ساتھ بات کرتے ہوئے، وائی کام 18 کے سی ای او اجیت آندھرے نے کہا، "فلم کے کوئی بیرونی ڈسٹری بیوٹرز نہیں ہیں، یہ وائی کام اسٹوڈیوز کی طرف سے تقسیم کیا جا رہا ہے۔ فلم اب بھی ہندوستان اور بین الاقوامی سطح پر سینما گھروں میں چل رہی ہے۔ یہ بے بنیاد قیاس آرائیاں ہیں۔” زیادہ تر بڑے شہروں میں زیادہ تر بڑے اسٹوڈیوز کے اپنے ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک ہیں اور چھوٹے مراکز میں فلمیں سب ڈسٹری بیوٹرز کو کمیشن کی بنیاد پر ریلیز کی جاتی ہیں۔
باکس آفس پر چار دن کی دوڑ کے اختتام پر لال سنگھ چڈھا نے تقریباً 37.75 کروڑ روپے کمائے۔ تنازعات میں گھرے ہونے کے باوجود، فلم باکس آفس پر اکشے کمار کی رکشا بندھن سے آگے رہنے میں کامیاب رہی، جو کہ اسی دن ریلیز ہوئی تھی۔
خانز کی فلموں کا بائیکاٹ کیوں کیا جارہا ہے
عام طور پر فلم ناقدین ناظرین کو فلم کی جانب متوجہ یا پھر متنفر کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں وہ سنیما جانے یا نہ جانے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ البتہ لال سنگھ چڈھا یہاں بھی بدقسمت رہی۔ ناقدین، جن کی اکثریت نے منفی تبصرے دیے، ناظرین کو متنفر نہیں کرسکے، کیونکہ وہ پہلے ہی اس فلم کا بائیکاٹ کرچکے تھے۔
اس بائیکاٹ کی وجوہات دلائل کے بجائے تعصب کی بنیاد پر کھڑی تھیں۔ جن باتوں کو موضوع بنایا گیا، وہ پرانے واقعات تھے، جیسے عامر خان کا ایک بیان اور ان کی فلم پی کے۔ اس پورے پروپیگنڈے کے پیچھے 3 عوامل تھے مسلم دشمنی، سیکولر بیانیے کو رد کرنا اور بولی وڈ کا بائیکاٹ۔
तीन दिन में आमिर ख़ान की फ़िल्म ‘लाल सिंह चड्ढा’ की कुल कमाई.#LalSinghChadha #LalSinghChaddhareview #AmirKhan pic.twitter.com/GujXQ3OtEl
— Zee Salaam (@zeesalaamtweet) August 14, 2022
مودی دورِ حکومت میں مسلمانوں کو دیوار سے لگانا ایک ایسی تلخ حقیقت ہے جس پر ماضی میں بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ اس افسوسناک چلن نے سماج کے دیگر شعبوں کے ساتھ ساتھ بولی وڈ کو بھی متاثر کیا جو ماضی میں اپنے سیکولر امیج پر فخر کیا کرتا تھا اور جس پر دلیپ صاحب سے مسٹر پرفیکشنسٹ تک، خانز کا راج تھا۔
مودی سرکار آنے کے بعد پہلے پہل تو قوم پرستی کو فروغ دیا گیا، ہندو انتہا پسندانہ سوچ رکھنے والے اداکار اور فلم سازوں کو حکومت کی گڈ بک میں جگہ دی جانے لگی، اکشے کمار اور اجے دیوگن کو خانز کے خلاف سپورٹ کیا گیا اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ اس کی تازہ شکل لال سنگھ چڈھا کی بائیکاٹ مہم تھی۔
کانگریس کے قریب سمجھے جانے والے خانز کو بولی وڈ میں سیکولرازم کی علامت تصور کیا جاتا تھا۔ اس سیکولرازم کو رد کرتے ہوئے سنیما میں مذہبیت کو فروغ دینے کے لیے خانز اور ایسے فن سازوں پر ضرب لگانا ضروری تھا، جو مذہب اور قوم پرستی کو موضوع بنانے سے اجتناب کرتے ہوں اور دیگر ممالک کے فنکاروں کو مواقع دینے کے لیے معروف ہوں۔
اے دل ہے مشکل میں فواد خان اور رئیس میں ماہرہ خان کی موجودگی کی وجہ سے جو شور اٹھا، وہ ریکارڈ پر موجود ہے۔ ان واقعات کے بعد کم از کم اداکاروں کی حد تک بھارتی فلم ساز پاکستانی ٹیلنٹ کو کاسٹ کرنے سے کترانے لگے۔
لال سنگھ چڈھا کو ’بائیکاٹ بولی وڈ‘ مہم سے بھی خاصا فرق پڑا۔ یہ مہم دراصل ساؤتھ انڈین سنیما کے حیران کن عروج کا نتیجہ ہے۔ تیلگو ڈائریکٹر راجا مولی نے اپنی بلاک بسٹر فلم باہو بلی کے ذریعے جب ہندی سرکٹ میں حیران کن کامیابی سمیٹی تو ساؤتھ کے فلم سازوں کو یہ نکتہ سمجھ میں آگیا کہ ہندی ناظرین میں میگا بجٹ، ایکشن اور مصالہ فلموں کے لیے شدید بھوک موجود ہے اور یہ ایک بڑی مارکیٹ ہے جہاں ریکارڈ کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ بعد ازاں کے جی ایف، آر آر آر اور پشپا جیسی فلموں نے اسی بھوک کو اپنے بزنس میں ڈھالا، اور ہندی فلم ساز اور فنکار ہاتھ ملتے رہ گئے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ ہندی سرکٹ میں سب سے زیادہ بزنس کرنے والی فلموں کی فہرست میں ٹاپ پر ہندی کے بجائے ڈب فلمیں نظر آتی ہیں۔
Next Mission#BoycottPathan#BoycottbollywoodCompletely pic.twitter.com/8pq07SmTPk
— Dilip Singh Chouhan (@The_DilipRajput) August 13, 2022
ساؤتھ انڈین فلموں کی فوقیت سے شروع ہونے والے ٹرینڈز میں جب مسلم دشمن اور اینٹی سیکولرازم سوچ کا تڑکا لگا تو اس نے بھی ایک بائیکاٹ مہم کی شکل اختیار کرلی۔ اس عنصر نے نہ صرف عامر خان کی فلم کو شدید متاثر کیا، بلکہ مودی جی کے قریب تصور کیے جانے والے اکشے کمار کی فلم رکشا بندھن بھی اسی ٹرینڈ کے لپیٹ میں آگئی اور متوقع کمال نہیں دکھا سکی۔
تو مذکورہ عوامل کی وجہ سے عامر خان کی بڑے چاؤ سے بنائی جانے والی یہ فلم، جسے ادویت چندن جیسے باصلاحیت ہدایت کار نے پورے خلوص سے بنایا ہوگا، بے معنی ہوگئی۔ یہ فلم ساڑھے تین ہزار سنیما گھروں میں ریلیز ہوئی تھی مگر بائیکاٹ کی وجہ سے پہلے دن صرف 25 سے 30 فیصد سیٹیں ہی بھر سکیں اور شوز کینسل کرنے پڑے۔ یعنی ناقدین کے رد کرنے سے پہلے ہی ناظرین اسے رد کرچکے تھے۔ انہوں نے فلم دیکھنے کی زحمت ہی نہیں کی۔
اس کی بڑی وجہ تو انتہا پسندوں کی بائیکاٹ مہم تھی،لیکن اس فلم کی ہائپ توقع سے کم تھی، ٹریلر بھی کمزور تھا، باکس آفس ٹکڑاؤ بھی آڑے آیا اور سب سے بڑھ کر فاریسٹ گمپ سے موازنہ بھی ایک بڑا چیلنج بن گیا۔
خیال رہے کہ پی کے اور دنگل کی ریلیز کے موقع پر بھی بائیکاٹ مہم زوروں پر تھی، مگر دونوں فلموں نے ریکارڈ بزنس کیا لیکن لال سنگھ چڈھا میں شاید وہ ہنر اور قابلیت نہیں تھی جو اسے کامیاب بنا پاتی۔
STOP being in denial about #Boycott calls *not* affecting film biz… The fact is, these #Boycott calls *HAVE* made a dent and impacted the #BO numbers of #LaalSinghChaddha specifically… Face it! pic.twitter.com/YjsH1gGet1
— taran adarsh (@taran_adarsh) August 13, 2022
یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ اس فلم کی ناکامی سے عامر خان کا کیریئر ختم ہوگیا مگر یہ ضرور ہے کہ عامر خان کے لیے یہ ایک بڑا دھچکا ہے جس سے ابھرنا آسان نہیں ہوگا۔
ساتھ ہی باقی دونوں خانز کے لیے بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ کیونکہ اس سال کے آخر میں سلمان خان کی فلم ‘کبھی عید کبھی دیوالی’ ریلیز ہونے والی ہے اور اگلے برس جنوری میں شاہ رخ کی ‘پٹھان’ بڑے پردے کی زینت بنے گی۔ خدشات ظاہر کیے جارہے ہیں کہ دونوں فلموں کو اسی قسم کی مشکلات اور بائیکاٹ مہم کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس لیے یہ سوال یہ ضرور بنتا ہے کہ کیا خانز کا دور ختم ہوگیا ہے؟ اور اس کا جواب ہمیں 2023ء کے آخر تک مل جائے گا۔
مزید انٹرٹینمنٹ کی خبریں پڑھنے کیلئے اس لنک پر کلک کریں : انٹرٹینمنٹ