دو سال سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد بھی دنیا کویڈ-19 سے اپنی جنگ جاری رکھے ہوئے ہے اور بہت سے ممالک ابھی بھی وبائی مرض سے مکمل بازیابی کے طریقے تلاش کر رہے ہیں،تو اسی دوران ایک نیا وائرس دنیا بھر میں سرخیاں بنا رہا ہے۔
مونکی پوکس وائرس کے بارے میں خیال کیا جارہا ہے کہ بشمول پاکستان اب تک 12 ممالک میں 100 کے قریب کیسز سامنے آچکے ہیں، اور ان کی تعداد مزید بڑھنے کی توقع کی جارہی ہے۔اس موجودہ وباء کا پہلا کیس 7 مئی کو برطانیہ میں سامنے آیا تھا اور اب تک نو یورپی ممالک میں انفیکشن کی تصدیق ہوچکی ہے: جن میں برطانیہ، اسپین، پرتگال، جرمنی، بیلجیم، فرانس، نیدرلینڈز، اٹلی اور سویڈن، اس کے ساتھ ساتھ امریکہ، کینیڈا اور آسٹریلیا بھی شامل ہیں۔
اگرچہ برطانیہ میں پائے جانے والے پہلے کیس کا تعلق نائیجیریا کے سفر سے تھا، جہاں ایک سال میں تقریباً 3,000 مونکی پوکس کے کیسز رپورٹ ہوتے ہیں – اس کے بعد کے کیسز کا افریقہ میں سراغ نہیں لگایا گیا، جس سے بہت سے سائنس دان اور ڈاکٹرز حیران ہیں۔
موجودہ وباء کے بارے میں جو بات غیر معمولی ہے وہ یہ ہے کہ ان ممالک میں کیسز کی تشخیص ہو رہی ہے جہاں مونکی پوکس ہونا ایک نایاب واقعہ ہے، اور حقیقت یہ ہے کہ شناخت کیے جانے والے بہت سے کیسز کا تعلق مغربی اور وسطی افریقہ سے نہیں ہے، اس وبا کو ماہرین کے لیے پریشانی بنارہا ہے۔
مونکی پاکس کیا ہے؟
مونکی پاکس افریقہ کے گرم ممالک میں پائے جانے والے ایک وائرس کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اس کے نام کے باوجود، مونکی پاکس شاذ و نادر ہی متاثرہ بندروں کے ذریعے پھیلتا ہے، لیکن یہ گلہری، چوہوں اور ان جیسے جانوروں میں زیادہ عام ہے۔اس وائرس کو زونوٹک کے نام سے جانا جاتا ہے – یعنی یہ متاثرہ جانوروں کے ذریعے خون، متاثرہ سیالوں یا جانوروں کے زخموں کے ذریعے انسانوں میں پھیلتا ہے۔
انسان سے انسان میں منتقلی سانس کی رطوبتوں، کسی متاثرہ شخص کی جلد کے زخموں یا حال ہی میں آلودہ اشیاء کے ساتھ قریبی رابطے کے نتیجے میں ہو سکتی ہے، جس سے صحت کے کارکنوں، گھر کے افراد اور متاثرہ افراد کے دیگر قریبی رابطوں کو زیادہ خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ لیکن کیا یہ وائرس ہوائی راستے کے ذریعے پھیل سکتا ہے؟ اس کی فی الحال تفتیش جاری ہے، حالانکہ ابھی تک اس کی تائید کرنے کے لیے کوئی ثبوت نہیں ہے۔
اگرچہ یہ وائرس سب سے پہلے لیبارٹریز میں رکھے گئے بندروں میں 1958 میں شناخت کیا گیا تھا، لیکن بندروں سے پہلی بار ایک انسان میں منتقلی 1970 میں شناخت ہوئی تھی اور یہ ایک بیماری ہے جو عام طور پر افریقہ کے کچھ حصوں تک محدود ہے، یہ ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو کے دیہی حصوں میں سب سے زیادہ ہے، اگرچہ گیبون، لائبیریا، نائیجیریا سیرا لیون ، جنوبی سوڈان اور کیمرون میں بھی اس کے پھیلنے کی اطلاع ملی ہے۔ ۔ افریقہ سے باہر پہلی وبا 2003 میں سامنے آئی تھی، جس نے امریکہ میں لوگوں کو متاثر کیا تھا۔ اس کا تعلق متاثرہ پالتو جانوروں کے پریری نسل کے کتوں سے تھا جو گھانا سے درآمد کیے گئے تھے اور متاثرہ چوہوں کے ساتھ رکھے گئے تھے۔
مونکی پوکس کی ابتدائی علامات میں بخار، سر درد، پٹھوں میں درد، کمر میں درد، سوجن ، جسم پر چھالے بننا، سردی لگنا اور تھکن شامل ہیں اور خارش بھی پیدا ہو سکتی ہے، یہ اکثر چہرے سے شروع ہوتی ہے، پھر جسم کے دیگر حصوں میں پھیل جاتی ہے۔
ابتدائی طور پر یہ سیال سے بھرے چھالے والے دانے ہوسکتے ہیں جو چکن پاکس یا آتشک سے مشابہت رکھتے ہیں، آخر میں خارش بننے سے پہلے گر جاتے ہیں ۔زیادہ تر لوگ بغیر علاج کے چند ہفتوں میں مونکی پاکس سے صحت یاب بھی ہو جاتے ہیں۔
اس کی تشخیص عام طور پر طبی ہوتی ہے، یعنی علامات ہی طبی ماہرین کے لیے ٹیسٹ کی ضرورت کے بغیر تشخیص کرنے کے لیے کافی ہیں۔ تاہم، اگر مونکی پوکس کا شبہ ہے، تو معالجین کو چاہیے کہ وہ زخموں میں سے کسی ایک سے سیال کا نمونہ لیں اور اسے پولیمریز چین ری ایکشن (PCR) ٹیسٹ کے لیے لیبارٹری کو بھیجیں تاکہ تشخیص کی تصدیق ہو سکے۔ اس بیماری میں خون کے ٹیسٹ کو اتنا درست نہیں سمجھا جاتا ہے اور اسے معمول کے مطابق استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔
مونکی پوکس وائرس، وائرسوں کے ایسے خاندان کا حصہ ہے جسے "DNA وائرس” کہا جاتا ہے۔ SARS-CoV-2 وائرس کے برعکس جو COVID-19 کا سبب بنتا ہے، جو کہ ایک RNA وائرس ہے،ڈی این اے وائرس بہت کم شرح پر تبدیل ہوتے ہیں کیونکہ وہ اپنے جینیاتی میک اپ میں غلطیوں کی نشاندہی کرنے اور نقل کے عمل کے دوران انہیں درست کرنے میں بہتر ہوتے ہیں۔ یہ بہت اہم ہے کیونکہ اس سے سائنس دانوں کو بہتر طور پر یہ سمجھنے میں مدد ملے گی کہ مونکی پاکس کی موجودہ وبا کیوں پھیل رہی ہے۔ کیا یہ وائرس خود بدل گیا ہے یا یہ صحیح وقت پر صحیح جگہ پرموجود ہے؟ موجودہ ویرئینٹ کا تعلق عام طور پر مغربی افریقہ میں پائے جانے والے ویرئینٹ سے ہے، جس کا تعلق ہلکی علامات اور کم شرح اموات سے ہے۔
مونکی پاکس سے کون متاثر ہو سکتا ہے؟
یہ وباء یقینی طور پر افریقہ سے باہر پھیلنے والی دیگر وباؤں سے مختلف محسوس ہورہی ہے۔
ابتدائی معاملات کو چھوڑ کر، متاثرہ افراد میں سے بہت سے لوگوں کا سفر یا افریقہ سے کسی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ غیر معمولی طور پر، وائرس مردوں کے ساتھ جنسی تعلق رکھنے والے مردوں کی غیر متناسب تعداد میں پایا گیا ہے۔ مونکی پاکس ایک جنسی طور پر منتقل ہونے والا وائرس نہیں جانا جاتا ہے، لیکن کیونکہ جنسی رابطہ قریبی رابطے کے طور پر تشکیل پاتا ہے، اور ان اہم وجوہات میں سے ایک ہے جس کے ذریعے وائرس پھیلنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ وجہ کچھ بھی ہو، یہ ضروری ہے کہ متاثرہ افراد کی تندرستی اور معاملات اور وباء کی نگرانی جاری رکھنے میں مدد کے لیے کسی کو بھی بدنام نہ کیا جائے۔
کورونا وبائی مرض کے دوران سفری پابندیوں کے خاتمے کے بعد مختلف ممالک کے سفر میں اضافہ بھی اس کا ایک عنصر ہو سکتا ہے۔تشویشناک بات یہ ہے کہ یورپ اور دنیا بھر میں پائے جانے والے کیسز آپس میں منسلک نہیں ہیں، یعنی اس پہیلی کا ایک حصہ غائب ہے کہ یہ وائرس کیسے پھیل رہا ہے۔
مونکی پوکس وائرس اسی خاندان کا حصہ ہے جس سے چیچک کا وائرس آتا ہے۔ پرانی نسلوں کو چیچک سے بچاؤ کے ٹیکے لگائے گئے تھے،اوریہ ہو سکتا ہے کہ زیادہ تر نوجوان نسلوں کو چیچک کے خلاف ویکسین نہ ہونے کی وجہ سے یہ وائرس زیادہ آسانی سے پھیلنے میں کامیاب ہوا ہو۔
کیا مونکی پوکس کا کوئی علاج یا کوئی ویکسین دستیاب ہے؟
لوگوں کی اکثریت ، مونکی پاکس کے متاثرہ افراد بغیر کسی علاج کے خود ہی ٹھیک ہو جاتی ہے۔اس کے لیے آرام، کافی مقدار میں مائعات اور اچھی غذائیت وہ سب چیزیں ہیں جن کی عام طور پر ضرورت ہوتی ہے۔
تاہم، حاملہ خواتین، بچوں اور کمزور مدافعتی نظام والے افراد میں سنگین بیماری کا خطرہ زیادہ ہو سکتا ہے۔
فی الحال، مونکی پوکس کے لیے کوئی مخصوص ویکسین دستیاب نہیں ہے، تاہم، چیچک کی ویکسین مونکی پاکس کے خلاف 85 فیصد تحفظ فراہم کرتی ہے۔ لیکن اس وقت، چیچک کی ویکسین عام لوگوں کے لیے دستیاب نہیں ہے۔ مونکی پوکس کی روک تھام اور کنٹرول کے لیے ویکسینیشن کی فزیبلٹی اور مناسبیت کا جائزہ لینے کے لیے اب سائنسی مطالعات جاری ہیں۔ کچھ ممالک کے پاس ایسے لوگوں کو ویکسین پیش کرنے کی پالیسیاں ہیں، یا بنا رہے ہیں جنہیں خطرہ لاحق ہو سکتا ہے جیسے کہ لیبارٹری کے اہلکار، میڈیکل رسپانس ٹیمیں اور ہیلتھ ورکرز۔
یہ سمجھنا کہ یہ موجودہ وباء کس طرح پھیل رہی ہے ٹرانسمیشن کے سلسلے کو توڑنے اور متاثرین کی تعداد کو کنٹرول میں لانے میں کلیدی ہوگا۔ آگے بڑھتے ہوئے، جانوروں کے ساتھ ہمارے تعلقات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ وائرس کا زونوٹک پھیلاؤ تشویش کا باعث بنے گا جب کہ ہم جنگلی جانوروں کے ماحول پر اثر انداز ہورہے ہیں۔
مونکی پاکس سے ہمیں کتنا پریشان ہونا چاہیے؟
زیادہ تر سائنس دان اس بات پر متفق ہیں کہ مونکی پاکس کا یہ موجودہ پھیلنا، اگرچہ سمجھنا ضروری ہے، لیکن اس کا کورونا یا SARS-CoV-2 کی طرح ایک اور وبائی بیماری میں تبدیل ہونے کا امکان نہیں ہے۔
یہ کوئی نیا وائرس نہیں ہے، ماہرین اس کے بارے میں کئی سالوں سے جانتے ہیں اور اس کی ساخت اور تبدیلی کے عمل کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ تاہم، کچھ تشویش پائی جاتی ہے کہ جیسے جیسے موسم کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے اور تہواروں اور کنونشن جیسے بڑے اجتماعات عام ہوتے جاتے ہیں، قریبی رابطہ ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے اور وائرس کے پھیلنے کا خطرہ بھی زیادہ ہوسکتا ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے انفیکشن پر روزانہ ہنگامی اجلاس منعقد کرنا شروع کردیئے ہیں اور عالمی سطح پر صورتحال کی نگرانی جاری رکھے ہوئے ہے۔اس موجودہ وباء کے بارے میں سمجھنے کے لیے اور بھی بہت کچھ ہے اور اگرچہ یہ کوئی دوسرا کوویڈ نہیں ہے،لیکن بہرحال اس وائرس کو قدم جمانے سے روکنے کے لیے مزید تحقیق اور بعد میں روک تھام کی حکمت عملیوں کو اپنانے کی ضرورت ہے۔
مزید اہم خبریں پڑھنے کیلئے اس لنک پر کلک کریں : اہم خبریں