14 جون کو پاکستان کے منصوبہ بندی اور ترقی کے وزیر احسن اقبال نے لوگوں سے اپیل کی کہ ملک کے کم ہوتے زرمبادلہ کے ذخائر کو بچانے میں مدد کے لیے ” عوام کو چاہئیے کہ دن میں چائے کے دو کپ پینے کی بجائے ایک کپ پئیں” ۔ اس بیان کے بعد عوام کی طرف سے شدید ردِ عمل سامنے آیا اور عوام کی طرف سے سوشل میڈیا پر شدید احتجاج بھی کیا گیا ۔ایک اندازے کے مطابق، اوسط پاکستانی ایک دن میں کم از کم تین کپ چائے پیتا ہے۔ تو حکومت پاکستان انہیں چائے کم پینے کو کیوں کہہ رہی ہے؟
پاکستان ہر سال 600 ملین ڈالر مالیت کی چائے درآمد کرتا ہے۔ لیکن حکومتی خزانے میں غیر ملکی ذخائر 9 بلین ڈالر سے بھی کم رہ گئے ہیں۔ یہ اگست کے بعد سے 50 فیصد سے زیادہ کی کمی ہے اور تمام اشیا کی 45 دنوں کی درآمدات کو پورا کرنے کے لیے بمشکل کافی ہے ۔ اس پرغیر ملکی قرض دہندگان کے کچھ 129 بلین ڈالر واجب الادا ہیں۔ گزشتہ روز یعنی 21 جون کو اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کے نمائندوں نے پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں حکام سے ملک کے معاشی بحران پر بات چیت کی۔
دنیا بھر میں خوراک اور ایندھن کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ پاکستان میں رواں سال مئی میں سالانہ مہنگائی 13.8 فیصد تک پہنچ گئی، جو کہ ڈھائی سال میں سب سے زیادہ ہے۔ کئی دہائیوں کی معاشی بدانتظامی نے ادائیگیوں کے توازن کے بحران کو جنم دیا ہے۔ پاکستان نے پچھلے 30 سالوں میں سے 22 کسی نہ کسی طرح کے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) پروگرام میں خرچ کیے ہیں۔ یوکرین میں وبائی بیماری اور جنگ نے ملک کی بیمار معیشت کو مزید نقصان پہنچایا ہے۔ گزشتہ روز21 جون کو پاکستانی روپیہ ڈالر کے مقابلے میں نئی ریکارڈ کردہ کم ترین سطح پر آگیا۔ جبکہ بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 8.6 فیصد تک ہے، جو حکومت کے پچھلے ہدف 7.1 فیصد سے بہت زیادہ ہے۔ساتھ ہی ملک میں جاری حالیہ سیاسی عدم استحکام نے معاملات کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے۔
اپریل میں سابق وزیر اعظم عمران خان کو انتہائی ڈرامائی انداز میں معزول کر دیا گیا تھا اور ان کی جگہ شہباز شریف کو وزیر اعظم بنایا گیا تھا۔ عمران خان نئی حکومت کے خلاف تب سے سراپا احتجاج ہیں ۔
شہباز شریف کی نئی حکومت جو اپوزیشن میں رہتے ہوئے عمران خان کی معاشی پالیسیوں کی کڑی نقاد تھی اب خود معیشت کی بحالی میں ناکام نظر آرہی ہے۔ 10 جون کو وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے لاگت کی بچت کے اقدامات سے بھرپور بجٹ پیش کیا۔انہوں نے بینکنگ سیکٹر پر ٹیکسوں میں تین فیصد اضافہ کیا اور بجٹ خسارے کے ہدف کو جی ڈی پی کے 4.9 فیصد تک کم کر دیا۔ انہوں نے پیٹرولیم کی سبسڈی کو ختم کرنے کا بھی اعادہ کیا جس سے حکومت کو ہر ماہ 600 ملین ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔17 جون کو، حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 29 فیصد تک کا اضافہ کردیا ، ایک ماہ میں یہ تیسرا اضافہ ہے۔ اس طرح کے اقدامات مہنگائی میں پسی عوام کے لیے مزید تکلیف دہ ثابت ہو رہے ہیں لیکن ان کا مقصد 6 بلین ڈالر کے پیکج کے بقیہ نصف کو تقسیم کرنے کے لیے آئی ایم ایف کو راضی کرنا ہے، جس کے بغیر پاکستان اپنے قرضوں کی ادائیگیوں میں ناکام ہو سکتا ہے۔
لیکن لگتا ہے کہ اب آئی ایم ایف پاکستان کی خالی وعدوں کی طویل تاریخ سے تنگ آچکا ہے۔ 1996 اور 1997 کے درمیان حکومت نے بجٹ خسارے کے اعداد و شمار کو 2 بلین ڈالر تک کم کرنے کے لیے فنڈ سے بیل آؤٹ حاصل کیا۔ معروف امریکی بینک سٹی گروپ نے حال ہی میں ایک پیشین گوئی کی ہے کہ نئے بجٹ کے اعلانات ائی ایم ایف کو متاثر کرنے کے لیے کافی نہیں ہوں گے۔
چائے پر مبنی کفایت شعاری کا احسن اقبال کا بیان پہلا نہیں ہے لیکن حکومت اور ملکی اشرافیہ خود کفایت شعاری اپنانے کے لیے راضی نہیں ہے ۔2018 میں تحریک انصاف کی حکومت نے حکام کو اخراجات میں کمی کے لیے میٹنگوں کے دوران کھانے کی بجائے بسکٹ دینے کا آرڈر دیا ۔ لیکن پاکستان کی معیشت کو گہرے بحرانوں میں ڈوبنے سے بچانے کے لیے چائے میں کمی کے بجائے مشکل انتظامی اور معاشی اصلاحات کو اپنانے کی ضرورت ہے۔
مزیداہم خبریں پڑھنے کیلئے اس لنک پر کلک کریں : اہم خبریں