اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے جمعہ کو قومی احتساب آرڈیننس میں کی گئی ترامیم کے خلاف پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ کی درخواست پر محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں، سروس آف پاکستان سے متعلق قومی احتساب بیورو (نیب) کی شق کی اہمیت پر زور دیا، اس طرح پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین کی جانب سے پیش کردہ درخواست کو جزوی طور پر "قابل قبول” قرار دیا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل تین رکنی خصوصی بینچ نے درخواست کی سماعت کی۔
چیف جسٹس نے اپنی ریٹائرمنٹ سے قبل اس کیس میں فیصلے کا اعلان کیا اور اس فیصلے کے ملکی سیاست پر دور رس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے 5 ستمبر کو فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔
اس تاریخی فیصلے کے نتیجے میں عوامی عہدوں پر فائز سیاستدانوں کے خلاف ریفرنسز کی بحالی ہوئی ہے۔
2022 کی نیب ترامیم کو چیلنج کرنے والے کیس نے ایک وسیع قانونی سفر دیکھا، اس اہم فیصلے تک پہنچنے سے پہلے کل 55 سماعتیں ہوئیں۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی مناسب نمائندگی خواجہ حارث نے کی جبکہ حکومت کے قانونی مشیر مخدوم علی خان نے اٹارنی جنرل کی طرح پٹیشن کی سختی سے مخالفت کی۔