پاکستان کے سابق وزیر خزانہ اور پاکستان مسلم لیگ نواز کی معاشی ٹیم کے سرخیل سمجھے جانے والے اسحاق ڈار کو ایک مرتبہ پھر پاکستان کی معیشت کو سنبھالنے اور عوام کو ریلیف دینے کا کام سونپا جا رہا ہے۔
گذشتہ دنوں مسلم لیگ ن کی جانب سے جاری بیان کے مطابق نواز شریف کی زیرِ صدارت لندن میں اہم پارٹی اجلاس کے دوران مفتاح اسماعیل نے اپنا استعفیٰ پیش کیا جس کے بعد سینیٹر اسحاق ڈار کو وزیرِ خزانہ کے لیے نامزد کیا گیا۔
سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار سنہ 2017 سے لندن میں قیام پذیر ہیں۔ ان کی واپسی ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب مرکز میں ان کی جماعت کی سربراہی میں ایک مخلوط حکومت قائم ہے۔
اسحاق ڈار نے گذشتہ رات بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ان کی سب سے پہلی ترجیح معیشت کو موجودہ گرداب سے نکالنا ہے اور کرنسی کو مستحکم کرنا ہے۔‘
اپریل 2022 میں سابق وزیرا عظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف کی سربراہی میں قائم ہونے والی حکومت میں وزارت خزانہ کا قلمدان مفتاح اسماعیل کو ملا تھا۔
پانچ ماہ سے زائد وزیر خزانہ رہنے والے مفتاح اسماعیل کے بعد اب یہ قلمدان اسحاق ڈار کو دے دیا گیا ہے جو اس سے پہلے سابق وزیرا عظم نواز شریف کے دوسرے اور تیسرے وزارت عظمیٰ کے دور میں وفاقی وزیر خزانہ رہ چکے ہیں۔
اسحاق ڈار ایک ایسے وقت میں وزارت خزانہ کا قلمدان سنبھالنے جا رہے ہیں جب پاکستان میں ملکی معیشت شدید مشکلات کا شکار ہے جس کی وجہ سے مہنگائی کی سطح 27 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔
ملک میں تیل، بجلی، گیس اور خوردنی اشیا کی قیمتوں میں ہونے والے بے تحاشا اضافے کی وجہ سے موجودہ حکومت تنقید کی زد میں ہے تو دوسری جانب آئی ایم ایف پروگرام کا حصہ ہونے کے باعث اسے سخت معاشی فیصلے کرنے پڑے ہیں۔
اس وقت امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی کرنسی ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے اور ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے۔
خراب معاشی صورت حال میں اس وقت مزید بگاڑ پیدا ہوا جب سیلاب کی وجہ سے ملک کے ایک تہائی حصے میں زرعی شعبہ تباہی کا شکار ہوا اور ابتدائی تخمینوں کے مطابق سیلاب کی وجہ سے ملک کو تیس ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔
ملک کے لیے معاشی طور پر مشکل حالات کے اس دور میں اسحاق ڈار کی بطور وزیر خزانہ واپسی کیا ملکی معیشت کو دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا کر پائے گی؟
اس بارے میں نواز لیگ کے رہنما محمد زبیر پُر امید ہیں تاہم معاشی ماہر ڈاکٹر فرخ سلیم کے مطابق موجودہ بدحال معاشی صورتحال میں اگر اسحاق ڈار کے پاس کوئی ’آوٹ آف دی باکس‘ حل ہے تو وہ کامیاب ہو سکتے ہیں ورنہ ان کا سابقہ معاشی ماڈل موجودہ صورت حال میں کارگر ہوتا نظر نہیں آتا۔
اسحاق ڈار کی اس وقت واپسی کیوں ہو رہی ہے؟
سابقہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی پانچ سال بعد پاکستان واپسی کے بارے میں نواز لیگ کے ایک سینیئر رہنما نے بی بی سی نیوز کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ حقیقت ہے کہ معیشت اس وقت بدترین صورت حال کا شکار ہے اور مہنگائی کی وجہ سے عام فرد کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’پانچ ماہ میں معاشی طور پر لوگوں کو کوئی ریلیف نہیں مل سکا اور اس کے ساتھ تجارتی اور کاروباری حلقے بھی اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’پاکستان کے کاروباری حلقوں نے لندن میں میاں نواز شریف سے رابطہ کیا کہ نواز لیگ کی موجودہ معاشی ٹیم سے معاملات نہیں سنبھل رہے۔ جس کے بعد میاں نواز شریف نے اسحاق ڈار کو یہ ذمہ داری دینے کا فیصلہ کیا جس کی وجہ ان کی ماضی میں خراب صورتحال میں کارکردگی تھی۔‘
’جب سنہ 1998 میں پاکستان کی جانب سے ایٹمی دھماکوں کے بعد ملک پر معاشی پابندیاں عائد کر دی گئی تھیں اور دوسری بار 2013 میں نواز لیگ کو معیشت ایک بری صورتحال میں ملی تھی۔‘
نواز لیگ کے سینیئر رہنما محمد زبیر نے کہا کہ ’یہ حقیقت ہے کہ معیشت مشکلات کا شکار ہے اور مہنگائی کی وجہ سے لوگ پریشان ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’آئی ایم ایف پروگرام کی وجہ سے بہت سارے ایسے فیصلے کرنے پڑے جس کی وجہ سے عام افراد کو معاشی طور پر زیادہ بوجھ اٹھانا پڑا اور نواز لیگ کے اندر بھی اس پر تشویش پائی جاتی ہے۔‘
اسحاق ڈار کی واپسی پر تبصرہ کرتے ہوئے محمد زبیر نے کہا کہ سابق حکومت کی جانب سے انھیں تین سال تک پاسپورٹ نہ دینا ان کی پاکستان نہ آنے کی سب سے بڑی وجہ تھی۔ اس سال مئی میں انھیں پاسپورٹ ملا تو اس وقت سے ان کی واپسی کی بات شروع ہوئی۔‘
ڈار کی واپسی نواز لیگ کو کیا فائدہ پہنچا سکتی ہے؟
پاکستان میں نواز لیگ کی موجودہ حکومت کو دن بدن خراب ہوتی معاشی صورتحال کی وجہ سے تنقید کا سامنا ہے اور پنجاب میں جولائی میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں شکست کی وجہ بھی مہنگائی کی بلند شرح کو قرار دیا جاتا ہے۔
محمد زبیر نے اس توقع کا اظہار کیا کہ اسحاق ڈار معاشی صورت حال کو بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور وہ ماضی میں بھی ایسا کر چکے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’ایک سیاسی جماعت کی معیشت اور عوام دونوں پر نظر ہوتی ہے کیونکہ یہ پولیٹیکل اکانومی ہے اور ایک خاص حد سے زیادہ عوام پر بوجھ نہیں ڈالا جا سکتا ہے۔‘
محمد زبیر کے مطابق اسحاق ڈار کی واپسی اور معیشت میں بہتری سے نواز لیگ کو یقینی طور پر سیاسی فائدہ حاصل ہو گا۔
ماہر معیشت ڈاکٹر فرخ سلیم کے خیال میں اس وقت پاکستان میں وزیر خزانہ کسی کو بھی بنا دیا جائے تو اس سے فرق نہیں پڑتا کیونکہ آئی ایم ایف پروگرام کے بعد پاکستان کا وزیر خزانہ صوابدیدی اختیارات نہیں رکھتا اور اسے آئی ایم ایف شرائط کے تحت ہی ملکی معیشت کو چلانا پڑے گا۔
ڈاکٹر فرخ نے بتایا کہ نواز لیگ کی حکومت اسحاق ڈار سے دو کام چاہے گی۔ ’ایک امریکی ڈالر کے مقابلے میں وہ مقامی کرنسی کو نیچے لائیں اور دوسرا وہ مالیاتی سپیس یعنی گنجائش پیدا کریں کیونکہ اگلے سال انتخابات کا سال ہے اور مالیاتی گنجائش کے بغیر انفراسٹرکچر جیسے ترقیاتی منصوبوں کو شروع نہیں کیا جا سکتا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اسحاق ڈار کا ماڈل روپے کا اوور ویلیو اور ہارڈ انفراسٹکچر یعنی پل اور سٹرکیں بنا کر معیشت کو چلانے کا رہا ہے تاکہ اس سے ملازمتیں بھی پیدا ہو سکیں۔
’اس آئی ایم ایف پروگرام کے تحت کرنسی کو مارکیٹ فورسز پر چھوڑ دیا گیا ہے اور سٹیٹ بینک یا حکومت اس میں مداخلت نہیں کر سکتی جبکہ سیلاب کی وجہ سے ہارڈ انفراسٹرکچر پر کام نہیں ہو سکتا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’نواز لیگ کی اسحاق ڈار سے توقعات زیادہ ہیں جن کا آئی ایم ایف پروگرام کی موجودگی میں پورا ہونا مشکل دکھائی دیتا ہے۔‘
وہ کون سا اکنامک ایجنڈا ہے جو مفتاح پورا نہ کر سکے؟
نواز لیگ کے سینیئر رہنما نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’مفتاح اسماعیل کی معاشی پالیسی کی وجہ سے مہنگائی بڑھی جس کی وجہ سے لندن میں پارٹی قائد میاں نواز شریف تک سے رابطہ کیا گیا۔
انھوں نے کہا کہ ’نواز لیگ ہمیشہ مہنگائی کم اور ترقیاتی منصوبوں کے ذریعے ملازمتیں پیدا کرنے کا ایجنڈا رکھتی ہے جو موجودہ حکومت میں اب تک نظر نہیں آیا۔‘
تاہم ڈاکٹر فرخ سلیم اس بات سے اختلاف کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ مفتاح اسماعیل کو جو ایجنڈا دیا گیا تھا وہ انھوں نے پورا کیا۔
انھوں نے کہا کہ ’پاکستان تحریک انصاف نے اپنے دور حکومت میں آئی ایم ایف سے پروگرام کیا تاہم پھر شرائط کی خلاف ورزی کی اور پروگرام معطل ہو گیا۔ مفتاح اسماعیل کو اس پروگرام کو بحال کرنے کا ایجنڈا ملا تاکہ ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچایا جا سکے، انھوں نے یہ کام کیا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ملکی معیشت کی بہتری کا ایجنڈا اس وقت پرانے معاشی ماڈل سے پورا نہیں ہو سکتا جو اسحاق ڈار ماضی میں اپناتے رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’ملک میں ڈالر ختم ہو گئے ہیں یا بہت کم رہ گئے ہیں۔ دوسری جانب پاکستان کو 25 ارب ڈالر کی پٹرولیم مصنوعات، تین ارب ڈالر کا خوردنی تیل، دو ارب ڈالر کا کوئلہ درآمد کرنا ہے۔
’یہ سب پرانے معاشی ماڈل کے ذریعے نہیں ہو سکتے۔ اس کے لیے فنانشنل ایمرجنسی جیسے اقدامات اٹھانے ہوں گے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اسی طرح این ایف سی کے تحت 56 فیصد وسائل کا حصہ صوبوں کو ملتا ہے۔ اب موجودہ معاشی صورت حال میں یہ بھی نہیں چل سکتا۔ ایک آؤٹ آف باکس حل اس صورت حال میں اختیار کرنا ہو گا اور دیکھنا یہ ہے اسحاق ڈار کے پاس کونسا ’آؤٹ آف باکس‘ حل ہے جس کی بنیاد پر ان سے توقعات باندھی جا رہی ہیں۔‘
مزید بلاگز پڑھنے کیلئے اس لنک پر کلک کریں : بلاگز