لاہور ہائی کورٹ نے گورنر پنجاب کی جانب سے پرویز الٰہی کو وزارت اعلیٰ کے عہدے سے ہٹانے کے خلاف درخواست پر سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ‘گورنر پنجاب کے وکیل نے مزید کارروائی نہ کرنے کا بیان دیا ہے’۔
گورنر پنجاب بلیغ الرحمان نے وزیراعلیٰ پرویز الٰہی کا اعتماد کا ووٹ قبول کرتے ہوئے انہیں ‘ڈی نوٹیفائی’ کرنے کا نوٹیفکیشن واپس لے لیا۔ فریقین کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے پرویز الٰہی کی جانب سے حکم کے خلاف دائر درخواست نمٹا دی۔
سماعت کے دوران گورنر پنجاب کے وکیل نے کہا کہ مجھے گورنر پنجاب نے ہدایات دی ہیں۔ گورنر نے وزیر اعلیٰ سے اعتماد کا ووٹ لینے کی رپورٹ حاصل کر لی ہے۔ منصور عثمان اعوان ایڈووکیٹ نے کہا کہ ‘گورنر پنجاب نے وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کو ہٹانے کا نوٹیفکیشن واپس لے لیا ہے۔’
جسٹس عابد عزیز شیخ نے مزید کہا کہ کوشش ہونی چاہیے کہ عدالت ایسے معاملات میں مداخلت نہ کرے۔ اب سب کچھ آئین کے مطابق ہو گیا ہے۔
جسٹس عابد عزیز شیخ نے ریمارکس دیئے کہ ‘پرویز الٰہی کی درخواست آج کامیاب ثابت ہوئی ہے۔’
جسٹس عابد عزیز شیخ نے ریمارکس دیئے کہ ‘جب نوٹیفکیشن واپس لے لیا جائے تو پھر اس کیس کا جواز ہی نہیں بنتا’۔
عدالت نے فیصلے میں کہا کہ ‘پرویز الٰہی نے وزارت اعلیٰ سے ہٹانے کے نوٹیفکیشن کو چیلنج کیا تھا۔ پرویز الٰہی کو ہٹانے کا نوٹیفکیشن آج سماعت کے دوران گورنر پنجاب نے معطل اور واپس لے لیا۔
عدالت نے گورنر پنجاب کے وکیل کے بیان کو ریکارڈ کا حصہ بنا دیا۔ عدالت نے فیصلے میں کہا کہ گورنر پنجاب کے وکیل نے وزیراعلیٰ پنجاب کے خلاف مزید کارروائی نہ کرنے کا بیان دیا ہے۔ پرویز الٰہی نے فلور ٹیسٹ پاس کر لیا ہے۔ پرویز الٰہی کی درخواست ثمر آور ہو گئی۔
جسٹس عاصم حفیظ نے کہا کہ اس کیس میں اضافی نوٹس دیں گے۔ ‘ہم اس معاملے میں فیصلہ کرنے کی طرف نہیں جائیں گے۔’
عدالت نے وزیراعلیٰ پنجاب کو ہٹانے کا چیف سیکرٹری پنجاب کا 22 دسمبر کا نوٹیفکیشن بھی کالعدم قرار دے دیا۔
اعتماد کے ووٹ کے بعد اب مسئلہ یہ ہے کہ گورنر کا نوٹیفکیشن درست تھا یا نہیں، لاہور ہائیکورٹ
لاہور ہائی کورٹ کا پانچ رکنی بینچ گورنر پنجاب کی جانب سے پرویز الٰہی کو وزارت اعلیٰ کے عہدے سے ہٹانے سے متعلق درخواست کی سماعت کر رہا ہے جس میں پرویز الٰہی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر عدالت میں پیش ہوئے۔
بیرسٹر علی ظفر نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اعتماد کا ووٹ رات کو لیا گیا ہے۔ جس پر جسٹس عابد عزیز شیخ نے استفسار کیا کہ ‘رات کو کتنے ارکان تھے؟’
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ‘186 ارکان نے اعتماد کا اظہار کیا۔ 186 ارکان ہی درکار ہیں۔’
وکیل گورنر پنجاب نے کہا کہ فلور ٹیسٹ ہو چکا ہے۔ وزیراعلیٰ نے اعتماد کا ووٹ لیا ہے.
جسٹس عابد عزیز شیخ نے استفسار کیا کہ ‘کیا گورنر اعتماد کے ووٹ سے مطمئن ہیں؟’ اس پر گورنر کے وکیل نے جواب دیا کہ ‘اعتماد کے ووٹ کے ریکارڈ کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے۔’
جسٹس عابد عزیز شیخ نے استفسار کیا کہ بیرسٹر علی ظفر آپ کیا کہیں گے؟ فلور ٹیسٹ ہو چکا ہے۔ کیا آپ اس درخواست کو سننے پر اصرار کریں گے؟’
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ بظاہر درخواست غیر موثر ہو گئی ہے۔ گورنر کا نوٹیفکیشن قانون کے مطابق نہیں تھا۔
جسٹس عابد عزیز شیخ نے ریمارکس دیئے کہ ووٹ لینے کے بعد ایک مسئلہ حل ہو گیا ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ گورنر کا نوٹیفکیشن درست تھا یا نہیں۔ آپ نے آرٹیکل 137 کے تحت اعتماد کا ووٹ لیا ہے۔’
جسٹس عاصم حفیظ نے ریمارکس دیئے کہ ‘اگر آپ کہتے ہیں کہ گورنر کا حکم غیر قانونی ہے تو معاملہ انجام تک جائے گا’۔
جسٹس عابد عزیز شیخ نے ریمارکس دیئے کہ اگر گورنر کا حکم دیکھنا ہے تو ہر چیز کو دیکھنا ہوگا۔ آپ نے اسے ٹھیک حل کیا۔ گورنر کو مطمئن کرنے کے لیے آپ نے اعتماد کا ووٹ لیا۔’
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ‘گورنر کی جانب سے ہٹانے کا اقدام غیر قانونی تھا’۔ جس پر جسٹس عابد عزیز نے استفسار کیا کہ کیا عدالت اتفاق رائے سے فیصلہ کرے؟
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ‘عدالت کو اس پر اپنی فائنڈنگ دینے دیں۔’
جسٹس عابد عزیز شیخ نے ریمارکس دیئے کہ ‘جب ملاقات نہیں ہوتی تو کیا اعتماد کا ووٹ نہ لینے پر وزیر اعلیٰ کو گھر بھیجا جا سکتا ہے؟’
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ‘گورنر کی جانب سے تاریخ طے کرنے کا نکتہ بھی اٹھایا جا سکتا ہے۔’